پٹنہ:یکم ستمبر، 2022
جماعت اسلامی ہند کے سابق امیر جماعت مولانا سید جلا ل الدین عمری کی یاد میں پورے ملک میں تعزیتی نشستوں کا سلسلہ جاری ہے۔
سابق امیرجماعت کا انتقال 26 اگست کورات 8.30 بجے نئی دہلی میں ہوا تھا۔ ان کی عمرتقریباً 87 سال تھی۔ وہ کافی دنوں سے علیل اورنئی دہلی واقع الشفا اسپتال میں زیر علاج تھے۔ان کی نمازجنازہ 27 اگست کونئی دہلی کے ابوالفضل واقع مسجد اشاعت اسلام میں ادا کی گئی جبکہ تدفین شاہین باغ قبرستان میں ہوئی۔
بہار میں پٹنہ،موتیہاری، ارریہ، نوادہ اورسمستی پور سمیت کئی مقامات پرتعزیتی نشستوں کا اہتمام کرکے مولانا کی شخصیت اور خدمات پر روشنی ڈالی گئی۔
مرکز اسلامی پٹنہ میں منعقد تعزیتی نشست میں مقررین نے کہا کہ مولانا کے انتقال سے ملت میں ایک ایسا خلاء پیدا ہو گیا ہے، جس کا مستقبل قریب میں نعم البدل نظر نہیں آتا۔ مقررین میں جماعت اسلامی ہندبہار کے امیر حلقہ مولانا رضوان احمد اصلاحی، سابق امرائے حلقہ جناب قمر الہدیٰ و جناب احمد علی اختر، امارت شرعیہ بہار و جھارکھنڈ کے نائب امیر شریعت مولانا شمشاد رحمانی، آل انڈیا ملی کونسل کے نائب صدر مولانا انیس الرحمان قاسمی، مدرسہ سلیمانیہ کے سابق پرنسپل مولانا سید امانت حسین، جمعیت علماء ہند بہار (محمود مدنی)کے ناظم مولانا محمد ناظم، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت بہار چیپٹر کے سکریٹری جنرل جناب انوارلہدیٰ اور مولانا مرحوم کے شاگرد خاص جناب ارشد اجمل شامل ہیں۔
مولانا رضوان احمد اصلاحی نے مرحوم کے ساتھ اپنے ذاتی تعلقات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کچھ ہی عرصے کے بعد مولانا سے دوستانہ اور رفیقانہ تعلق استوار ہو گیا۔
مولانا رضوان احمد نے مرحوم علمی صلاحیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک بڑے اسلامک اسکالر اور علوم دینہ میں گہری بصیرت رکھتے تھے۔ اس کی شہادت کے لئے ان کی تحریریں اور تصانیف کافی ہیں۔ بالخصوص معاشرتی موضوعات پر انہوں نے کافی کچھ لکھا ہے تاہم موضوعات کے اندر غیر معمولی تنوع پایا جاتا ہے۔ بعض موضوعات تو ایسے ہیں جس پر مولانا کے علاوہ کسی نے قلم نہیں اٹھایا۔ مولانا سے سچی خراج عقیدت یہ ہوگی کہ ہم لوگ مولانا کے مشن اور افکار و نظریات کی ترویج و اشاعت میں سرگرم عمل ہو جائیں۔
جناب احمد علی اختر نے کہا کہ مرحوم کا اصل میدان تصنیف و تالیف رہا ہے۔ وہ قلم کے مجاہد تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے تنظیمی ذمہ داریاں بھی بحسن و خوبی نبھائیں۔
مولانا شمشاد رحمانی نے کہا کہ دعوت، تصنیف، خدمت اور جذبہ انسانیت سے مرحوم نے ملت اسلامیہ کو جو دیا ہے، اس کا حق ملت ادا نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ مولانا نے مسلکی تصادم کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔مرحوم نے دیو بندی، بریلوی، شیعہ سنی کے بیچ کی دوریاں کم کرکے ہندوستان میں اتحاد ملت کی بنیاد کو مستحکم کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ مولانا جلا ل الدین عمری کی دارالعلوم دیوبند میں آمد و رفت سے جماعت اسلامی کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیاں دور ہوئیں۔
مولانا انیس الرحمان قاسمی نے کہا کہ مرحوم عالمی پیمانے پر بڑے عالم ربانی و مصنف و محقق تھے۔ انہوں نے وقت کی ضرورت کو سامنے رکھ کر تصنیف کی۔ ان کی کتابیں دین سے متعلق شکوک و شبہات کو دور کرتی ہیں۔ خواتین سے متعلق جو اعتراضات کئے جاتے رہے ہیں، ان کی وضاحتیں انہوں نے کی ہیں۔مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاسوں میں کئی اہم ایشوز ایسے آئے جس میں صرف مولانا عمری کی وجہ سے ملت اور شریعت کی لاج رہ گئی۔
مولانا سید امانت حسین نے کہا کہ مرحوم میں قائدانہ صلاحیتیں موجود تھیں۔ ان کی تحریر میں جاذبیت ہوتی تھی۔ وہ امت مسلمہ کے بہترین قائد اور ناصح تھے۔
مولانا محمد ناظم نے کہا کہ اللہ نے مرحوم کو تصنیفی خصوصیات عطا کی تھیں۔ وہ علم دوست اور غیر معمولی منکسر المزاج تھے۔
جناب انوا رلہدیٰ نے کہا کہ مولانا عصری اور دینی علوم کا سنگم تھے۔ وہ دینی ملی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلتے تھے۔ ملت جس دور سے گزر رہی ہے، ایسے میں مولانا کی رحلت ملت کے لئے بڑا سانحہ ہے۔
جناب ارشد اجمل نے کہا کہ مرحوم نے جہاں ایک طرف تصنیفی کام کیا، وہیں دوسری طرف طلبا کی ایک کھیپ کو تصنیفی کام میں لگایا بھی۔ ادارہ تحقیقات کی ذمہ داری سنبھالنے کے دوران انہوں نے مختلف جہتوں پر کام کیا۔
اس سے قبل جماعت اسلامی ہند بہار کے سابق امیر حلقہ جناب قمرالہدی نے کہا کہ مرحوم سچے داعی اور انسانیت کے خادم تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی ملت کے لئے وقف کر دی۔
تعزیتی نشست میں مختلف مکتبہ فکر کے خواتین و حضرات اور طلبا و نوجوانوں نے شرکت کی۔ پروگرام کے اخیر میں حضرت نائب امیر شریعت نے مولانا مرحوم کے حق میں اجتماعی دعائے مغفرت کی۔
Be the first to comment