دعوت، تربیت، اصلاح معاشرہ اور خدمت 24 گھنٹے اور ہر جگہ کرنے کے کام ہیں: امیر جماعت

خبرنامہ
جولائی۔اگست
2024

جماعت اسلامی ہند بہار کی جانب سے 21 جولائی کو پٹنہ میں یک روزہ علاقائی اجتماع برائے بنیادی و لازمی کام کا انعقاد کیا گیا۔ اس اجتماع میں 28 مقامات کے ارکان وہ کارکنان نے شرکت۔اجتماع کے مہمان خصوصی محترم امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی نے افتتاحی و اختتامی تقریر کی۔ انہوں نے کہا کہ ہر ایک رکن کو چار بنیادی کام کرنے ہیں۔ یہ چار کام ہیں — دعوت، تربیت، اصلاح معاشرہ اور خدمت خلق۔جلسہ کے دوران ارکان اور کارکنان نے اپنے اپنے مقام کی رپورٹ پیش کی۔ پیش ہیں محترم امیر جماعت کے ا فتتاحی خطاب کے مخصوص حصے۔

محترم دوستو! ہماری تحریک اللہ کے دین کو قائم کرنے کی تحریک ہے۔ اقامت دین کی تحریک ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں اللہ کا دین قائم ہو، نافذ ہو، یہ ہماری تحریک کا، ہماری جماعت کااصل مقصد،نصب العین ہے۔ یہ مقصد کیسے حاصل ہوگا،ہمارا جو پالیسی پروگرام ہے، میقاتی منصوبہ ہے، وہ اس strategyکی، حکمت عملی کی اس پروگرام کی اطاعت کرتا ہے جس کے ذریعہ ہم یہ مقصد حاصل کرناچاہتے ہیں۔لیکن آپ غور کریں گے تو آپ محسوس کریں گے کہ سب سے اہم کام جس کے ذریعہ یہ مقصد حاصل ہوگا، وہ لوگوں کی ذہن سازی کا کام ہے۔ان کی فکر بنانے کا کام ہے۔ ایک ایک فرد دوسرے سے ملے گا، اس پر اثر انداز ہوگا، اس کی سوچ بدلے گا، اس کا مزاج بدلے گا، اس کا کردار بدلے گا، اس کے اخلاق بدلے گا۔ اسی کے نتیجے میں اللہ کے دین کے قیام کی طرف ہم آگے بڑھیں گے۔
دوسرے کاموں کی اہمیت ہے۔ ہمارے منصوبے میں تو اور کام شامل کئے گئے ہیں — ملی امور ہیں، ملکی امور ہیں، تعلیم ہے، فکر و تحقیق کا کام ہے۔ خدمت خلق کے ادارے ہیں۔ یہ سب کام بھی اہم ہیں۔ ان سب کاموں کی بھی اقامت دین کی اسکیم میں اہمیت ہے، ان کا ایک مقام ہے۔لیکن اصل کام، بنیادی کام، جس کے ذریعہ اس مقصدکی طرف پیش رفت ہو سکتی ہے،وہ یہی ہے کہ ہم میں سے ہر فردلوگوں سے ملے،اور ان کے ذہن و فکر کو بدلنے کی کوشش کرے۔بنیادی و لازمی کام بس اسی کام کا خلاصہ اور تفصیل ہے۔ یہی کام ہم برادران وطن میں کرتے ہیں تو اسے دعوت کا کام کہتے ہیں۔ یہی کام جب ہم مسلمانوں میں کرتے ہیں تو اسے اسلامی معاشرے کا کام کہتے ہیں۔ اور یہی کام جب ہم نئے آنے والے نوجوانوں کے سلسلے میں، کارکنوں کے سلسلے میں، تحریک سے نئے جڑنے والوں کے سلسلے میں کرتے ہیں تو اسے ہم تزکیہ و تربیت کا کام کہتے ہیں۔ اور سب کاموں کو کرتے ہوئے اللہ کے بندوں کے لئے جو تڑپ ہمارے دلوں میں ہوتی ہے، ان کی خدمت کا جو جذبہ ہوتا ہے، اسے ہم خدمت خلق کا کام کہتے ہیں۔تو اصل جو کام ہے وہ یہی ہے کہ لوگوں سے ملا جائے، زیادہ سے زیادہ انفرادی رابطہ رکھا جائے اور ان کے ذہن و فکر کو، ان کے اخلاق کو بدلنے کی کوشش کی جائے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جو اس میقات میں شامل کی گئی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ہمارے دستورِجماعت کی دفعہ 8 میں ارکان جماعت کی ذمہ داریاں بتائی گئی ہیں۔جب کوئی امیدوار رکنیت کا فارم بھرتا ہے تو اس میں وہ یہ بات لکھتا ہے کہ میں نے جماعت کا عقیدہ اچھی طرح سمجھ لیا ہے، میں نے جماعت کا نصب العین سمجھ لیا ہے۔ اور رکن جماعت کی حیثیت سے کچھ ذمہ داریاں مجھ پر عاید ہوتی ہیں،وہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے میں تیار ہوں۔ آٹھ ذمہ داریاں دستور کی دفعہ 8 میں بتائی گئی ہیں۔ ان میں سات پہلی ذمہ داریاں جو ہیں، وہ ہماری ذاتی زندگی سے متعلق ہیں۔ صرف ایک آٹھویں ذمہ داری ارکان جماعت کی سماجی ذمہ داریوں سے متعلق ہے۔
سماج میں ہم کیا کام کریں گے؟کہا گیا ہے کہ ہم اپنی استطاعت کے مطابق، عقیدہ اور نصب العین — اس کی دعوت کو لوگوں کے سامنے پیش کریں گے۔ اس عقیدے پر،اس نصب العین پرلوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور جو لوگ مطمئن ہو جائیں، ان کو اس بات کے لئے آمادہ کریں گے کہ وہ اقامت دین کی عملی جدوجہد میں شریک ہو جائیں۔ یہ ہر رکن جماعت کی ذمہ داری ہے۔ جب سے یہ دستور بناہے، بلکہ جب سے یہ جماعت بنی ہے،اسی وقت سے یہ تصور ہے کہ رکن جماعت کے کرنے کا جو اصل کام ہے، وہ یہی ہے کہ وہ اپنی اپنی جگہ، جہاں بھی وہ رہتا ہے، اپنی فیملی میں،اپنے بزنس میں، آفس میں، اپنے پڑوس میں،اپنی مسجد میں، اپنے بچوں کے درمیان —ہر جگہ وہ جماعت کے پیغام کو عام کرے گا،جماعت کی دعوت کو عام کرے گا۔برادران وطن میں بھی عام کرے، برادران ملت میں بھی عام کرے۔ اور ان کے ذہن و فکر کو بدلنے کی مسلسل کوشش کرے۔
]اگلے صفحہ پر جاری[
یہاں ہمارے بہت سے بزرگ بھی تشریف فرما ہیں، یہ گواہی دیں گے کہ جب جماعت کا آغاز ہوا، تو ایک عام رکن کے ذہن میں جماعت کے کام کا ج کا تصور یہی تھا کہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ میں جماعت کا رکن بن گیا تو اب یہ میری ذمہ داری ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچوں اور ان تک اس کا پیغام پہنچاؤں۔ برادران وطن تک بھی اور مسلمانوں تک بھی۔ ہر رکن جماعت اس کے لئے کام کرتا تھا۔ ہم بزرگوں سے واقعات سنتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ چار سو کیلو میٹر دور، کوئی مسلمان ہے اس کے پاس رسالہ ترجمان القرآن آتا ہے،اس زمانے میں، آج سے پچاس سال پہلے، ساٹھ سال پہلے، جب سفر بہت مشکل تھا، تو وہ اس سے ملنے کے لئے چلے جاتے تھے۔ ایک آدمی سے ملنے کے لئے کہ وہ ترجما ن القرآن پڑھ رہا ہے تو اس کو تحریک سے قریب کرنا آسان ہے۔ وہ جماعت کا potential کارکن ہے، potential رکن ہے۔ تو میری ذمہ داری ہے کہ اس تک پہنچوں۔ یہ سارے قصے ہم سب نے پڑھے ہیں۔ تو رکن جماعت کا یہ بنیادی کام ہے، بنیادی ذمہ داری ہے۔
دستور جماعت کے مطابق ذمہ داری یہی ہے رکن جماعت کی۔ اور اس ذمہ داری کو ادا کرنے کا عہد کرکے میں اور آپ رکن بنے۔ لیکن بعد میں دھیرے دھیرے، جماعت جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی، اقامت دین کی منزل کی سمت آگے بڑھنے کے لئے ہم کو بہت سارے کام کرنے پڑے۔ ہم کو ادارے بنانے پڑے، ہم کو تعلیم کے میدان میں، ملی امور کے میدان میں بہت سارے کام کرنے پڑے۔ مہمات چلانی پڑیں۔ بڑے بڑے پروگرام کرنے پڑے۔ یہ سب ہوا۔ تو اس کے نتیجے میں اس کا side effectیہ ہوا کہ لوگوں نے یہ سمجھ لیاکہ جماعت کے کام کا مطلب ہے،اجتماع۔ جماعت کا مطلب ہے مہم۔ جماعت کا کام ہے ادارہ چلانا۔ ہاسپٹل چلانا، اسکول چلانا،ا ٓفس چلانا، میٹنگ کرنا۔ تو ہمارے ارکان و کارکنا ن انتظار میں رہتے ہیں کہ مرکز سے مہم کا سرکلر آئے گا تو ہم کام کریں گے۔ یا جب ہفتہ وار اجتماع ہوگا، سنڈے کا دن آئے گا تو ہم اجتماع کا کام کریں گے۔ کئی جگہ مشہو رہوگیا ہے کہ جماعت سنڈے کی جماعت ہے۔ سنڈے کے دن ہی یہ لوگ active ہوتے ہیں۔
یہ جو خرابی پیدا ہو گئی، اس کے نتیجے میں ہماری افرادی قوت بڑھنا کم ہو گئی، ہمارے اثرات بڑھنا کم ہوگئے۔ تو یہ جو اس دفعہ ہم نے پروگرام میں شامل کیا ہے، اسی side effect کے علاج کی کوشش ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تحریک کا ہر کارکن دوسرے کام بھی کرے، اجتماع بھی کرے، مہم بھی کرے لیکن جماعت کا اصل کام وہ نہیں ہے۔ ہمارا اجتماع بھی اسی وقت موثر ہوگا، مفید ہوگا مسلسل انفرادی کام ہوتا رہے گا۔ میرے چار لوگوں سے رابطے ہیں اور میں مسلسل ان پر انفرادی محنت کر رہا ہوں، ان کو لٹریچر پڑھا رہا ہوں، ان سے روزانہ بات کرتا ہوں، کبھی ان کو اپنے گھر پر بلاتا ہوں، کبھی ان کے گھر پر جاتا ہوں۔ ان کا ذہن بدلنے کی، فکر بدلنے کی مسلسل کوشش کر رہا ہوں۔ اور پھر سنڈے کے دن اجتماع ہوتا ہے تو پھران کو وہاں بھی لے جاتا ہوں۔ تو میرا وہ کام موثر ہوتا ہے۔ جو باتیں میں نہیں بتا پاوہ اسے اجتماع میں دوسرے سے سننے کو ملتی ہے۔ جس سوال کا جواب دینے میں میں قاصر ہوں، وہ اجتماع میں دوسرے سے مل جاتا ہے۔ اجتماع کا مقصد میرے انفرادی کام کو مضبوط بنانا ہے۔ وہ انفرادی کام کا متبادل نہیں ہے۔ انفرادی کام، ذاتی محنت یہ تو ہر آدمی کے لئے مطلوب ہے۔
کئی جگہ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ آپ نے دعوت، اصلاح معاشرہ، خدمت اور تربیت ……اس کو لازمی کام قرار دیا ہے تو کیا دوسرے کام اہم نہیں ہیں؟ تعلیم کا کام اہم نہیں ہے؟ملی امور کا کام اہم نہیں ہے؟یہ سارے کام اہم ہیں۔ اہمیت کسی کام کی کم نہیں کی ہے۔ لیکن فرق ہے کہ وہ کام specialisation کے کام ہیں۔ دعوت کا کام، ملی امور کا کام، تعلیم کا کام— یہ چند لوگ کریں گے۔ جو تعلیم کے ماہر ہوتے ہیں ہمارے درمیان، وہ تعلیم کا کام کریں گے۔ جو ہمارے درمیان قیادت کے لیڈر شپ کے اوصاف سے آراستہ لوگ ہوں گے وہ ملی امور کا کام سنبھالیں گے۔ جو لوگ ہمارے درمیان برادران وطن میں influenceرکھنے والے ہوں گے، ملک کی policiesپر نظر رکھنے والے ہوں گے، وہ ملکی امور کا کام سنبھالیں گے۔ ہمارے درمیان مختلف صلاحیتوں کے لوگ ہیں، تو الگ الگ صلاحیت کے لوگ الگ الگ کام سنبھالیں گے۔ لیکن، دعوت، اسلامی معاشرہ، تزکیہ اور خدمت—یہ کام specialisationکے کام نہیں ہیں۔ یہ کام ہر مسلمان کا کام ہے۔ ہر رکن جماعت کا کام ہے۔ جس طرح نماز چند لوگوں کا کام نہیں ہے، جس طرح روزہ چند لوگوں کا کام نہیں ہے، جس طرح زکوۃ اور حج چند لوگوں کا کام نہیں ہے ……اسی طرح ہر ایک کو دعوت دین کا کام کرنا ہے۔ اسی طرح اصلاح معاشرہ بھی ہر ایک کا کام ہے۔
دوسرا اہم فرق یہ ہے کہ تعلیم کا کام،ملی امور کا کام،ملکی امور کا کام—یہ occasionalکام ہے۔ جب موقع ہوگا تب یہ کام انجام دیا جائے گا۔ لیکن دعوت، تربیت، اصلاح معاشرہ اور خدمت — یہ چار کام، چوبیس گھنٹے کرنے کے کام ہیں۔ یہ ہر جگہ کرنے کے کام ہیں۔ ہم آفس میں بیٹھے ہیں، وہاں بھی دعوت ہماری چلتی رہے گی۔ وہاں بھی اصلاح معاشرہ کا کام چلتا رہے گا۔ ہم اپنی دکان پر خرید و فروخت کا کام کر رہے ہیں تو ہم اپنے گاہکوں پر دعوت کا کام کریں گے۔ ہم اپنے vendors پر دعوت کا کام کریں گے۔ بغل میں دکان والا ہے، اس سے رابطہ رکھیں گے۔ ہم بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھیں گے گھر میں، وہاں اصلاح کا کام، تربیت کا کام چلتا رہے گا۔ اپنے رشتے دار کے ولیمے میں گئے ہیں، وہاں دعوت کا، اصلاح کا کام چلتا رہے گا۔ یہ کام ہمیشہ چلتا رہے گا، مسلسل ہوتا رہے گا۔ کبھی رکے گا نہیں۔

خطاب: ’اجتماع برائے بنیادی و لازمی کام‘
جماعت اسلامی ہند حلقہ بہار کی جانب سے 21 جولائی کو یک روزہ علاقائی اجتماع مظفّر پور میں منعقد کیا گیا جس میں ریاست بہار کے کئی مقامات کے بیشتر ارکان و کارکنان شریک رہے۔اس موقع پر خصوصی طور پر نائب امیر جماعت محترم مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی شریک رہے۔سکریٹری حلقہ بہار محترم نثاراحمدبھی موجود تھے۔یہ پروگرام خاص طور پر جماعت کے بنیادی و لازمی کام کے سلسلے میں مقامات کے جائزہ کے لئے منعقد کیا گیا تھاجس میں مقامات نے اپنی اپنی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کی روشنی میں بنیادی و لازمی کام کے حوالے سے درپیش مسائل پر تبادلہ خیال ہوا۔پروگرام میں شرکاء کی کل تعداد 150 رہی جس میں مرد حضرات 130 اور خواتین کی تعداد 20 رہی۔
اس سے قبل،جماعت اسلامی ہند مظفّر پور کی جانب سے ایک خطابِ عام کا پروگرام چندوارہ واقع ایک ہوٹل میں منعقد کیا گیا جس میں 350 سے زائد مرد و خواتین شریک رہے۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن سے ہوا جس کے بعد جناب نوراللہ خان، ناظمِ اضلاع نے افتتاحی گفتگو پیش کی۔اس کے بعد محترم مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی،نائب امیر جماعت نے عوام سے خطاب کیا جس میں انہوں نے ملک اور ملت کی موجودہ صورتحال اور ہماری ذمّہ داریاں کے موضوع پر تفصیلی گفتگو پیش کی۔ انہوں نے خواتین کے حقوق اور ذمّہ داریوں کے حوالے سے بھی بہت اہم باتیں رکھیں۔ اخیر میں اظہار تشکر کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا۔اس موقع پرسکریٹری حلقہ بہار جناب نثار کے علاوہ جناب ہشام طارق،امیر مقامی مظفّر پور, ڈاکٹر محمود الحسن، رکن شوریٰ بہار،جناب سید احمد،پروگرام کے کنوینر اور مظفّر پور یونٹ کے ارکان و کارکنان شریک رہے۔

ورکشاپ: فروغ انسانی وسائل
مستقبل کی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر منصوبہ بند طریقے سے باصلاحیت افراد کی تیاری وقت کا تقاضہ
کسی ادارہ کی ترقی میں مالی امور کی ضابطہ بندی، شفافیت، امانت داری اور بجٹ سازی کی کیا اہمیت ہے، اس پر جماعت اسلامی ہند، بہار کے زیر اہتمام مرکز اسلامی،پٹنہ میں 6 اور7 جولائی کو وو روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ ’مالیاتی و انتظامی صلاحیتوں کا فروغ‘ عنوان سے شعبہ فروغ انسانی وسائل کی طرف سے منعقدہ اس ورکشاپ میں مختلف اضلاع سے آئے جماعت اسلامی سے وابستہ ذمہ داروں نے شرکت کی۔ورکشاپ کے دوران بجٹ و مالیات کی اسلامی اور برٹش تاریخ پر روشنی ڈالی گئی اور بجٹ تیار کرنے کے لیے ضروری انسانی وسائل کو فروغ دینے پر بھی چرچا کیا گیا۔
ورکشاپ کے ریسورس پرسن اور جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری جناب عتیق الرحمان نے کہا کہ مستقبل کی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر منصوبہ بند طریقے سے باصلاحیت افراد کی تیاری وقت کا تقاضہ ہے۔ انہوں نے آنے والے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لئے’لائف لانگ لرننگ‘ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ہنر کو سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ ہم میں سے ہر شخص کوکوئی نہ کوئی ہنر ہمیشہ سیکھتے رہنا چاہئے۔
ایک دوسرے ریسور س پرسن اور جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری جناب محی الدین شاکر نے مالیاتی پلاننگ، فنڈ جنریشن، گوشوارہ، کیش بک، ڈے بُک، لیجر اور بینک اسٹیٹمنٹ کے رکھ رکھاو سے متلعق تکنیکی باریکیوں پر روشنی ڈالی۔
جماعت اسلامی ہند، بہار کے امیر حلقہ مولانا رضوان احمد اصلاحی نے اس موقع پر کہا کہ اسلام میں اعلیٰ صلاحیت کی غیر معمولی اہمیت ہے اور بلا تفریق عمر حصول علم کی تلقین کی گئی ہے۔ قرآن میں ماہر فن کی تعریف کی گئی ہے۔ رسول اللہ ؐ نے گود سے لے کر گور تک علم حاصل کرنے کی تلقین کی ہے۔ اسلام ہر انسان کو اس کے شایان شان ذمہ داری تفویض کرنے کا درس دیتا ہے۔ رسول اللہ ؐ نے حضرت بلال کو اذان کی ذمہ داری دینے کے ساتھ ساتھ وزیر خزانہ بھی بنایا تھا۔
معروف اسکالر پروفیسر ابو ذر کما ل الدین نے حکومتوں کی بجٹ سازی، اس کی تفہیم اور اور اس سے استفادہ کی شکلوں پر گفتگو کی۔انہوں نے کہا کہ لفظ budget فرینچ لفظ bougetteسے نکلا ہے جس کا مطلب ’چمڑے کا تھیلا‘ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وزیر مالیات کے ہاتھوں میں پارلیامنٹ میں بجٹ پیش کرنے سے قبل چمڑے کا بیگ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں 1860 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے پہلا بجٹ پیش کیا تھا، تب سے یہ لفظ رائج ہے۔
ایچ آر ڈی سکریٹری انتخاب عالم شمسی فلاحی نے شعبہ ایچ آرڈی کا تعارف پیش کرتے ہوئے اس کی اہمیت پر زور دیا ۔ ورکشاپ میں حلقہ کے آڈیٹرجناب احمد رضا نے کیش بک اور لیجر تیار کرنے کا عملی مشق کرایا۔ صحافی عبدالسمیع نے میڈیا منیجمنٹ پر، پروفیسر راغب حسن نے رائے عامہ کی تشکیل اور قمر وارثی نے ڈیٹا کی تیاری پر موثر اور قابل عمل رہنمائی کی۔

مرکزی ذمہ داران کا دورہ بہار
توسیع و استحکام کے ذمہ داران نے بہار کے مختلف مقامات کا کیا دورہ،کاموں کا لیا جائزہ
یکم جولائی کو موتی ہاری میں دو مرکزی ذمہ داران برائے توسیع و استحکام محترم حامد محمد خان اور محترمہ عطیہ صدیقہ کی تشریف آوری ہوئی۔موتہاری میں خواتین و طالبات کے دو پروگرامز اور مردوں کے دو پروگرامز منعقد کیے گئے۔مرد ارکان و کارکنان و متوسلین جماعت کی نشست 10 بجے سے ظہر تک چلی۔اس نشست میں موتی ہاری کے علاوہ سسوا،چکیا،ادھکپریا، رکسول اور ڈھاکہ کے رفقا نے شرکت کی۔
ناظم علاقہ و امیر مقامی نے علاقے و مقام کی صورتحال کے سلسلے میں مرکزی ذمہ داران کوآگاہ کیا۔محترم حامد محمد خان نے جماعت کی توسیع واستحکام کے سلسلے میں بہترین آئیڈیاز پیش کیے۔اس کے بعدانہوں نے ارکان و کارکنان اور متوسلین جماعت سے فرداً فرداً کیے جا رہے کاموں کا جائزہ لیا۔اسٹوڈنٹس اور یوتھ میں کام کے مختلف ڈائمنشنز کی نشاندہی کی۔ اسٹوڈنٹس میں کام چونکہ ایس آئی او کر رہی ہے مگر ایس آئی او کیمپس اورینٹڈ ہو چکی ہے اس لیے یوتھ کے درمیان جماعت کے کام کو آگے بڑھانے اور مختلف شعبہ جات سے متعلق افراد کی میٹنگ سٹنگ پرجناب خامد خان نے زور دیا۔انہوں نے کہاکہ ارکان کی تعداد بڑھانے کے لیے کارکنان کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافہ کی درکار ہے۔انہوں نے چلڈرن سرکلز کا شہر میں جال بچھانے کا مشورہ دیا۔ طالبات کے درمیان کام کو بڑی وسعت دینے کی ضرورت بتاتے ہوئے کہا کہ ان کے ذریعے سے ہمیں والدین تک پہنچنے کا موقع ملتا ہے۔
ظہر کے بعد شہر کے معزز خواتین و طالبات کے درمیان محترمہ عطیہ صدیقہ نے خطاب کیا۔نماز عصر کے بعد ارکان و کارکنان و متوسلین جماعت حلقہ خواتین کی ایک نشست ہوئی جس میں مقامی سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا۔ دو امیدوار رکنیت پر خوشی کا اظہار کیا مگر اسے ناکافی بتایا۔خواتین و طالبات میں کام کو بڑے پیمانے پر وسعت دینے پر زور دیا۔ پروگرام کو دلچسپ اور تربیتی بنانے پر بھی زور دیا۔اس سے ارکان، کارکنان ومتوسلین حلقہ خواتین و جی ائی او کے اندر نیا جذبہ بیدار ہوا۔ انہوں نے کام کوآگے بڑھانے کا عزم کیا۔
…………
جماعت اسلامی ہند کے ڈائرکٹر برائے توسیع و استحکام جناب حامد محمد خان نے یکم جولائی کوبعد نماز مغرب موتیہاری واقع جامع مسجد میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔ اس موقع پر انہوں نے تیزی سے بدلتے ہوئے ملکی و عالمی منظرنامہ میں بحیثیت امت مسلمہ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں اور ہمارا مومنانہ لائحہ عمل قرآن و سنت کی روشنی میں کیا ہونا چاہئے، اس تعلق سے 10 نکات پیش کیے۔ساتھ ہی دعوت، اصلاح، خدمت اور تربیت کا بھرپور احاطہ کیا۔
سامعین نے بے حد توجہ سے موصوف کی باتیں سنیں۔ان کے تاثرات بے حد پوزیٹو تھے۔ خطاب میں شہر کے عمائدین و معززین شریک تھے۔ الحمدللہ بارش کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے اور جناب حامد محمد خان کو پھر سے موتہاری بلانے کی درخواست کی۔
امیر مقامی جناب عبدالرشید برق نے اختتامی کلمات پیش کئے جبکہ جلسہ کی نظامت جناب ابو نصر نہال الدین نے کی۔
…………
جماعت اسلامی ہند کے ڈائرکٹر برائے توسیع و استحکام جناب حامد محمد خان نے3 جولائی کو دربھنگہ واقع علامہ اقبال لائبریری میں جماعت اسلامی دربھنگہ، سمستی پور، برداہا، نظرہ اور اسراہا کے ارکان و کارکنان سے گفتگو کرکے ان علاقوں میں ہو رہے دعوتی، اصلاحی، تربیت و تزکیہ اور خدمت خلق کے کاموں کا جائزہ لیا۔اس پروگرام میں دربھنگہ، سمستی پور، برداہا، نظرہ، اسراہا اور چھتون کے لگ بھگ 53 ارکان، کارکنان اور اس آئی او کے ممبران نے شرکت کی۔

وقف ترمیمی بل
وقف ترمیمی بل کو قانون نہ بننے دینے میں بہار کے عوام اپنا کلیدی رول ادا کریں: ملک معتصم خان
اگست 11اور 12کو محترم نائب امیر جماعت جناب ملک معتصم خان اور سکریٹری جناب عبد الرفیق دورزہ دورے پر بہار تشریف لائے۔ دورے کا واحد مقصد ”اوقاف”سے متعلق امور ومسائل تھا۔ منتخب اضلاع کے ذمہ داران اور امرائے مقامی کے ساتھ نشست میں جماعت کی کارکردی کا جائزہ لیا گیا،مجوزہ بل پر وکلاء جج حضرات،دانشوران،ملی قائدین کی نشست ہوئی۔ محکمہ اقلیتی فلاح کے وزیر جناب محمد زماں خان،بہار ریاستی سنی وقف بورڈ کے چیرمین الحاج ارشاداللہ اورشیعہ وقف بورڈ کے چیرمین جناب سید افضل عباس کے علاوہ دونوں بورڈ کے سی ای اوسے ملاقات اور تفصیلی گفتگو ہوئی۔بہار ریاستی اقلیتی کمیشن کے سابق چیرمین جناب یونس حکیم سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔۔امارت شرعیہ کے ذمہ داران علما،قاضی ومفتیان کے ساتھ ملی امور پر تبادلہ خیال ہوا۔وہیں،جماعت اسلامی ہند بگ سیٹی پٹنہ کی جانب سے 11 اگست کو پٹنہ واقع بہار اردو اکادمی کے کانفرنس ہال میں ایک خطاب عام ہوا جس میں ملی قائدین اورشیعہ و سنی ذمہ داران نے شرکت کی۔ خطاب عام کا عنوان تھا ’وقف کی اہمیت اور ہماری ذمہ داریاں‘۔ پیش ہے اس خطاب عام کی مختصر رپورٹ۔

جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے کہا کہ وقف کا نظام ’دینے کا ہے، لینے کا نہیں ہے‘۔ بعض طبقہ کی طرف سے پھیلائی جا رہی ہے کہ وقف بورڈ کسی کی بھی جائداد کو ہڑپ کر اس پر اپنا دعویٰ پیش کر دیتا ہے۔ ایسی غلط فہمیوں کے ازالے کے لئے ضروری ہے کہ اوقاف کے بارے میں نہ صرف برادران وطن، بلکہ عام مسلمانوں کو بھی صحیح صورت حال سے واقف کرایا جائے۔جناب معتصم خان نے آگے کہا کہ آج اوقاف کے سلسلے میں کئی سطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اول، وقف کی اہمیت و افادیت سے متعلق عوام میں بیداری لائی جائے۔ دوئم، اپنی اصلاح کی جائے تاکہ وقف کی جائیداد کا خردبردنہ ہو سکے۔ سوم، عوامی نمائندگان سے ملاقات کی جائے۔ چہارم، بہار اور آندھر پردیش کی حکومت پر عوامی دباو بنایا جائے۔ ضرورت پڑے تو پرامن اور جمہوری طریقے سے احتجاج بھی کیا جائے اور حکومت سے کہا جائے کہ وہ قوانین جن کا تعلق شریعت کے خلاف ہے، انہیں وہ قطعی منظور نہ کریں۔ پانچویں، قانونی سطح پر کام کیا جائے۔ اس سلسلے میں وکلاء بل کی خامیوں کی نشاندہی کریں۔جناب معتصم خان نے کہا کہ انشاء اللہ وقف ترمیمی بل ’بل‘ ہی رہے گا، قانون نہیں بنے گا۔ 
جماعت اسلامی ہندکی وقف امور کمیٹی کے سکریٹری عبدالرفیق نے کہا کہ ہمیں شر میں خیر کی تلاش کرنی چاہئے۔ وقف ایکٹ میں ترمیم حکومت کا ایک ایسا قدم ہے جس سے ہمیں خبردار ہونے کی ضرورت ہے۔ جس طرح این آرسی تحریک کے وقت لوگوں نے اپنی شہریت کی دستاویزات کو درست کرانے کا کام کیا تھا، اسی طرح اب ہمیں وقف جائداد کے کاغذات کودرست کرا لینے کا کام کر لینا چاہئے۔
امارت شرعیہ بہار و اڈیشہ کے قائم مقام ناظم مولانا شبلی القاسمی نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت ایک ایسا قانون بناتی جس سے سرکاری اور کارپوریٹ اداروں کے قبضے سے وقف کی جائداد کو واپس کرایا جاتالیکن اس کے برعکس سرکار انہیں ہڑپنے کے لئے قانون سازی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت غریبوں کے حقوق تلف کر نے کی کوشش کر رہی ہے جسے قطعی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔   
جماعت اسلامی ہند، بہار کے امیر حلقہ مولانا رضوان احمد اصلاحی نے کہا کہ حکومت کے پاس وقف کا مالکانہ حق نہیں۔ حکومت  وقف کی جائدادکی امانت دار ہوتی ہے لیکن یہاں صورت حال مختلف ہے۔ حکومت قانون بناکر امانت میں خیانت کرنا چاہتی ہے جو کہ کسی بھی طرح سے درست نہیں ہے۔ واقف اللہ کے نام پر اپنی املاک کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے  وقف کرتا ہے۔ اس کی منشا کے خلاف کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ نئے قانون کے تحت وقف بورڈ کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ فلاں زمین اس کی ہے یا نہیں۔ اس کے پیچھے حسد کا جذبہ کارفرما ہے کہ مسلمانوں کے پاس اتنی جائداد کیوں ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی بہانے سے اس پر قبضہ کرلینا چاہتی ہے۔
تقریب سے شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیرمین ارشاد علی آزاد، شیعہ عالم دین مولانا امانت حسین، پروفیسرشکیل قاسمی اورجناب عبدالوہاب انصاری سمیت کئی لوگوں نے بھی خطاب کیا۔

وقف بل پر20 اگست کومرکزی وزیراور ایل جے پی سربراہ چراغ پاسوان،21اگست کو وزیراعلی نتیش کمار اور22 اگست کو آرجے ڈی لیڈر تیجسوی یادو اور ایم پی پپو یادو سے دینی،ملی جماعتوں کے نمائندہ وفد کی ملاقات ہوئی۔

تربیت و تنظیم

ہر شخص اپنے آپ کو اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ بناکر پیش کرے: مولانا رضوان احمداصلاحی
پٹنہ ویسٹ، ہارون نگر سیکٹر2 کا اجتماع 28 جولائی کو ہوا۔اس موقع پر مولانا رضوان احمد اصلاحی، امیر حلقہ، جماعت اسلامی ہند، بہار نے اپنی گفتگو کا آغاز درس قرآن میں پیش کی گئی ایک آیت ”آج میں نے تمھارے لیے تمہارے دین کو پورا کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا“(ترجمہ) کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ اس آیت کو جب یہودی عالم نے سنا تھا تو اس نے کہا تھا کہ اگر یہ آیت ہمارے یہاں تَورات میں اترتی تو ہم جشن مناتے۔ لیکن یہ آیت کریمہ ہمارے قرآن میں موجود ہے پھر بھی ہم مسلمانوں میں کوئی ہلچل پیدا ہوتی ہے نہ ہی کوئی کیفیت۔
امیر حلقہ نے کہاکہ اجتماع کی نوعیت، اہمیت اور ضرورت کی طرف مرکوز کراتے ہوئے فرمایا کہ ہفتہ وار اجتماع کا مقصد درس قرآن، درس حدیث پیش کرنا یا لیٹریچر کی خواندگی نہیں۔ یہ تو یاد دہانی کے لئے ہے۔ اصل مقصد تو اس کا یہ ہے کہ اس مقام سے چند لوگ اٹھیں اور اقامت دین کے فرض منصبی کو نبھائیں۔ تبھی ہم حالات کو بدل سکتے ہیں۔ اور اس کے لئے ہر فرد اپنا ارتقاء کرے: انفرادی ارتقاء، روحانی ارتقاء، سماجی ارتقاء غرض ہر طرح کا ارتقاء کرے اور اپنے آپ کو اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ بناکر پیش کرے۔
……………
پٹنہ سنٹرل کا ہفتہ وار اجتماع 28 جولائی کو ہوا۔پروگرام کا آغاز مولانا رضوان احمد اصلاحی، امیر حلقہ، جماعت اسلامی ہند، بہار کے درس قران سے ہوا۔ انہوں نے سورہ البقرہ کی آیات کا درس دیااور بنی اسرائیل پر اللہ کے انعامات کا ذکر کیا اور ان آیات میں ہمارے لیے جو سبق ہے اس کا ذکر کیا۔
……………
جماعت اسلامی ہند سیتامڑھی یونٹ کی جانب سے یکم اگست کو شہر کے مہسول علاقے میں ماہانہ اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں ارکان و کارکنان اور منتخب ہمدردان شریک رہے۔ پروگرام کا آغاز درس قرآن سے ہوا جسے جناب وقار عالم نے پیش کیا۔اسکے بعد درس حدیث پیش کیا گیا۔ بعدازاں ذاتی تربیت،ضرورت و اہمیت کے موضوع پر تبادلہ خیال ہوا جس میں سبھی رفقاء نے اظہار خیال کیا۔اخیر میں ارکان و کارکنان کے ساتھ تنظیمی نشست کے ساتھ اجتماع کا اختتام ہوا۔
l سیتامڑھی یونٹ کی جانب سے4 اگست کو خواتین کے لئے ایک پروگرام منعقد کیا گیا جس میں جماعت کے ارکان و کارکنان کے گھر کی خواتین شریک رہیں۔اس پروگرام میں خاص طور پر ذاتی تربیت، اجتماعیت کی اہمیت وغیرہ کے موضوعات پر گفتگو ہوئی اور تبادلہ خیال ہوا۔پروگرام میں طے ہوا کہ اب سے ہر ماہ کے پہلے اتوار کو خواتین کا اجتماع ہوا کریگا۔انشاء اللہ۔
……………
جماعت اسلامی ہند بہارشریف کا یک روزہ مشترکہ اجتماع 18 اگست کو مدرسہ حلیمہ سعدیہ میں منعقد ہوا۔ درس قرآن میں جناب سیف اللہ نے سورہ حشر کی تین آیتوں کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی نے ہمارے لیے دو ہی راستے رکھے ہیں ایک وہ جو جنت کی طرف پہنچاتا ہے اور دوسرا وہ جس کا انجام دوزخ ہے۔ آخرت یقینی ہے جیسے آج کے بعد کل کا آنا۔ خدا سے ڈرنے والے اور اسے یاد رکھنے والے ہی جنت کی طرف کا رخ کرتے ہیں اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔بعد ازاں بعنوان ’موجودہ دور میں رائے عامہ کی تبدیلی کے ذرائع‘ پر جناب مظاہر الاسلام نے اپنے خیالات پیش کئے۔
……………
مشرقی چمپارن ضلع کا یک روزہ ضلعی تربیتی اجتماع موتیہاری واقع مسجد اشاعت الاسلام میں 25اگست کو ہوا۔ درس قرآن امیر مقامی جناب عبدالرشید برق نے پیش کیا۔ جناب ابو نصر نہال الدین نے ’ہمارا نصب العین اور تقاضے‘کے تعلق سے ایک لکچر پیش کیا۔ اس موقع پر ’دعوتی کام کرنے کا موثر طریقہ‘ عنوان سے ایک مذاکرہ ہوا۔ اختتامی کلمات ناظم علاقہ جناب خورشید امام نے پیش کئے۔
……………
جماعت اسلامی ہند سمستی پور کا یک روزہ ضلعی تربیتی اجتماع 25 اگست کوبھمرو پور مسجد، موہن پور ضلع سمستی پور میں منعقد ہوا جس میں تاجپور، شاہ پور بگھونی، ڈرھیابلار، دلسنگ سرائے، وارث نگر، منیار پور اور روسڑا کے رفقاء شریک ہوئے۔ ناظم ضلع و امیر مقامی جناب توقیر اختر نے اپنی افتتاحی گفتگو میں اس تربیتی اجتماع کے مقاصد اور اس کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تحریک اسلامی کا نصب العین اقامت دین کی جدوجہد ہے اور خیر امت کی حیثیت سے ہمارا سب سے اہم فریضہ ہے جس کے بارے میں اللہ کے ہاں ہم جواب دہ ہیں۔ جناب نظیراحمد، رکن شوری حلقہ بہار کی نگرانی میں سورہ طٰہٰ آیت 153تا157 کا مطالعہ پیش کرتے ہوئے قاضی ابو نصر جاوید نے اس سورہ کے زمانہ نزول پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سورہ حبش کی ہجرت کے دوران یا اس کے فوراً بعد نازل ہوئی لیکن اس کا نزول حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کہ مشرف اسلام ہونے سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ سورہ القیامہ آیت1تا15 مطالعہ پیش کرتے ہوئے جناب ڈاکٹر عبدالرب فلاحی علیگ نے آخرت کے وجود اور اس کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس سورہ میں منکرین آخرت کے ایک ایک شبہ اور اعتراضات کا مکمل جواب دیا گیا ہے۔
سورہ الدھر آیت1تا5کے مطالعہ میں مولانا سہیل احمد قاسمی نے بتایا کہ اس سورہ میں انسان کو دنیا میں اس کی حقیقی حیثیت اور مقام سے آگاہ کیا گیا ہے۔جناب عامر اقبال رکن شورہ حلقہ بہار نے اپنے کلیدی خطبہ’انسانی زندگی پر عقیدہ توحید وآخرت کے اثرات‘کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ انسانی زندگی پر توحید و آخرت کے عقیدہ کے بڑے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ عقیدہ جتنا مضبوط اور مستحکم ہوگا انسان کی زندگی اتنی ہی محتاط اور پاکیزہ ہوگی۔
’ہم اپنے خاندان کو اسلامی خاندان کیسے بنائیں‘ پر منی لکچرس ہوئے۔منی لیکچر کے ایک دوسرے عنوان’بچے آپ کی جنت……‘ کے موضوع پر قاضی محمد ابو نصر جاوید نے فرمایا کہ خود کو جہنم کی آگ سے تو بچانا ہی ہے ساتھ ساتھ ہمارے وہ اہل و عیال جن کے ہم داعی ہیں اس آگ سے بچانے کی بھرپور کوشش کرنی ہوگی۔ جناب سہیل احمد نے سورہ بنی اسرائیل اور حدیث مبارکہ کی روشنی میں والدین کے حق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کے بعد والدین کے حقوق ہی مقدم ہیں چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں۔ ’اقامت دین سے انحراف کی سزا‘ پر درس حدیث میں ڈاکٹر عبدالرب فلاحی علیگ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ کی روشنی میں فرمایا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کوصرف اپنی بندگی کے لیے ہی بھیجا تاکہ وہ دنیا کے نظام کو اللہ تعالیٰ ہی کے بنائے قوانین کے مطابق چلائے۔ یہی تو اقامت دین ہے۔

متفرقات
اسٹوڈنٹس میٹ
جماعت اسلامی ہند ارریہ رجوکھر یونٹ کی جانب سے 9 اگست کومسجد عمر بن خطاب میں ’اسٹوڈنٹس میٹ‘ کا انعقاد کیا گیا۔اس پروگرام میں رجوکھر اور اطراف کے تقریباً 60 طلباء نے حصہ لیا۔ عزیزم وسیم اکرم نے نوجوانوں سے وقت کی قدر کرنے اور زندگی کو مثبت راستے پر لے جانے پر زور دیتے ہوئے SIO کا تعارف پیش کیا۔امیر مقامی جناب مقصود عالم نے عبادت کا مفہوم بتاتے ہوئے اعلائے کلمۃ اللہ کو زندگی کا مرکز و محور بنانے کی اپیل کی۔

ایس آئی او
پٹنہ کی نیو عظیم آباد کالونی واقع فاران مسجد میں 4 جولائی کو ایس آئی او کی جانب سے ’تزکیہ نائٹ‘ پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر برادر کامران نعمان اور برادر سلمان نے سماج کی بہتر تشکیل کے سلسلے میں نوجوانوں کے مثبت رول پر روشنی ڈالی۔

بک وین
پورنیہ میں بک وین لگاکر اسلامی لٹریچر سے عام لوگوں کو متعارف کرایا گیا۔

سلم ایریاایجوکیشن سنٹر
جماعت اسلامی ہند، پٹنہ بگ سیٹی سلم ایریاکے کوآرڈینیٹر محمد آرزو نے29 جولائی کو پٹنہ واقع کملا نہرو نگر سلم ایریا میں چل رہے ایجوکیشن سنٹر کا دورہ کیا۔ اس دوران ایجوکیشن سنٹرمیں زیر مطالعہ 40بچوں کی ماؤں کے ساتھ میٹنگ کی گئی۔ میٹنگ میں ماؤں سے بچوں کی صاف صفائی پر توجہ دینے کی اپیل کی گئی۔اگلے روز 30 جولائی کو جناب محمد آرزو نے تارامنڈل سلم ایریا میں چل رہے ایجوکیشن سنٹر کا بھی دورہ کیا۔اس موقع پر 20 ضرورت مند خاندانوں کے بیچ ایک ہفتہ کا راشن تقسیم کیا گیا۔

جی آئی او
یوم آزادی کے موقع پر جی آئی او رام نگر کی جانب سے انعامی تقریری مقابلہ کا انعقاد کیا گیا۔
l جی آئی او سیوان کی ناظمہ فریحہ جمال نے اسکول کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے طالبات سے خطاب کیا۔ ساتھ ہی یکم ستمبر کے پروگرام کی بھی شروعات کی گئی۔

ادارہ ادب اسلامی
ادارہ ادب اسلامی ہند،موتیہاری کے زیر اہتمام 15 اگست کو مقامی جناب سید مبین احمد کی رہائش گاہ پر ایک ادبی نشست ’ایک شام یوم آزادی کے نام‘ کا انعقاد کیا گیا۔

سلائی سنٹر
دفتر جماعت اسلامی ہند ارریہ میں چل رہے سلائی ٹریننگ سنٹر کے پہلے بیچ جنوری تا جون 2024ء میں ٹریننگ پورا کر چکی 16 لڑکیوں کو 29 اگست کوسر ٹیفکیٹ دیا گیا۔

کوئز کمپٹیشن
جماعت اسلامی ہند رجوکھر یونٹ کی جانب سے 30 اگست کو10 ویں درجہ کے طلباء و طالبات کے لئے ایک open quiz competition منعقد کیا گیا، جس میں 129 بچّے اور بچیوں نے شرکت کی۔ یہ تعداد 71 بچوں 58 بچیوں اور 10 برادرانِ وطن کے بچوں پر مشتمل تھی۔ یہ competition مڈل اسکول رجوکھر میں کیا گیا تھا۔ اسکول کی ہیڈمسٹریس لتا دیوی سے چار بڑے بڑے ہال لئے گئے تھے۔ بچّے اور بچیوں کے لئے علاحدہ نظم کیا گیا تھا۔ مقابلہ دو گھنٹے کا تھا جو الحمدللہ بحسن و خوبی اختتام پذیر ہوا۔

ہیومن ویلفیئر فاؤنڈیشن
جماعت اسلامی ارریہ کے دفتر میں 28 اگست کو ایک پروگرام کا انعقاد کرکے ہیومن ویلفیئر فاؤنڈیشن کی طرف سے 45 ضرورت مند بچوں کے درمیان 9-9 ہزار وپے کے چیک تقسیم کئے گئے تاکہ وہ بچے اپنی تعلیمی ضروریات پوری کر سکیں۔ اس موقع پر امیر مقامی جناب مقصودعالم کے علاوہ کئی لوگ موجود تھے۔

بی وائی او
بہار یوتھ آرگنائزیشن پٹنہ سنٹرل کا افتتاحی پروگرام18 اگست کو مرکز اسلامی میں ہوا۔ جناب محمد شہزاد،امیر مقامی نے اپنے افتتاحی کلمات میں اس میٹنگ کی غرض و غایت بتائی کہ پٹنہ کے نوجوانوں کو ایک ساتھ جوڑنا ہے اور سماج میں ایک تبدیلی لانی ہے۔جناب غیور انور سیکرٹری BYO بہار نے سماجی تبدیلی میں نوجوانوں کی اہمیت پر بات رکھی اور بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو انقلاب لایا تھا اس میں نوجوانوں کی بڑی اہمیت تھی۔ اس موقع پر برادر مجاہد الاسلام کو BYO Patna Central کا صدر چنا گیا اور برادر تنویر احمد کو سیکریٹری کے طور پر چنا گیا۔ باقی لوگ BYO کے ممبر ہوں گے۔

سی آئی او
جماعت اسلامی ہند سمستی پور،حلقہ خواتین،ایس آئی او،جی آئی او اورچلڈرن سرکل کا مشترکہ ماہانہ تربیتی اجتماع18 اگست کو ریڈینس پبلک اسکول، سمستی پور میں منعقد ہوا۔ قاضی محمد ابو نصر جاوید نے جماعت اسلامی ہند کے قیام،اس کے نصب العین،طریقہ کار اورتربیتی اجتماع کی غرض وغایت،ضرورت اہمیت اور افادیت پرروشنی ڈالی۔ امیر مقامی جناب توقیر اختر نے ”موجودہ حالات میں تحریکِ اسلامی کی رو ح وتقاضے”موضوع پر گفتگو پیش کی۔ قاضی محمد ابو نصر جاوید کے زیر نگرانی اسٹوری ٹیلنگ میں ”ہم ایسے بنیں ”کے عنوان سے ایس آئی او’جی آئی اوکے طلباء وطالبات نے ”حضرت مصعب بن عمیرؓ، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ، حضرت خالد بن ولید ؓ، حضرت ام عمارہ ؓ،حضرت خدیجتہ ا لکبری ؓ کی سیرت پر روشنی ڈالتے ہوے خود کو ان پاک نفوس کے سانچے میں ڈھالنے کاعزم دہرایا۔ جناب آصف جمال کے virtual lecture ’آپ کو اپنی نظر میں کیسا ہونا چاہئے‘ پروجکٹر پر دکھایا گیا۔ جناب محمد تسلیم نے بعنوان ‘اقامت دین سے انحراف کی سزا‘ درس حدیث دیا۔ عالیہ تسنیم کی حمد باری تعالیٰ اور نعت رسولؐکے بعد مولانا ضیاء القمر فلاحی کی نگرانی میں جی آئی او؛ایس آی او کے طلبہ اورطالبات کے ذریعے مسلمان کسے کہتے ہیں؟نمازیں بے اثر کیوں ہو گئیں؟کیا قرآن سمجھ کر پڑھنا ضروری نہیں ہے؟دین وشریعت کے کیا معنی ہیں؟اسلام کا اصلی معیار کیاہے؟ جیسے عنوانات پر مشقی تقاریر میں صالح عبداللہ اختر، سمیرہ سہیل ‘طوبی دانش’خنسا اختر ‘صادقہ نور کی بھرپور حصہ داری رہی۔

ملگ گیر مہم ’اخلاقی محاسن۔ آزادی کے ضامن‘
افراد کے اندر اخلاقی محاسن اور آزادی کا صحیح تصور پیدا ہو تو معاشرے کی 90 فیصد برائیاں ختم ہو جائیں گی: امیر حلقہ
یکم ستمبر سے 30 ستمبر کے دوران شروع ہونے والی ملک گیر مہم ’اخلاقی محاسن: آزادی کے ضامن‘ کے سلسلے میں 31 اگست کو پٹنہ واقع ایک ہوٹل میں پریس کانفرس کا انعقاد کیا گیا۔پریس کانفرنس سے جماعت اسلامی ہند کے امیر حلقہ مولانا رضوان احمد اصلاحی، ریاستی مشاورتی کمیٹی، جماعت اسلامی ہند بہار کی رکن ڈاکٹر شہناز بیگم، شعبہ خواتین، جماعت اسلامی ہند، بہارکی ریاستی سکریٹری ڈاکٹر زیبائش فردوس اور مہم کی معاون کنوینر محترمہ زیبا آفتاب نے خطاب کیا۔
مولانا رضوان احمد اصلاحی
یہ جو سماج میں آپ برائیاں دیکھ رہے ہیں، جتنی طرح کی خرابیاں آپ دیکھ رہے ہیں، چاہے وہ غبن کا معاملہ ہو، جنسی انارکی کا ہو، فحاشی ہو، عریانیت ہو، لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتیاں ہوں —یہ چیزیں کیوں پیداہوتی ہیں؟جب آدمی کے اندر اخلاق نہیں ہوتا ہے، ان کے اندر حیا نہیں ہوتی ہے، شرم نام کی چیز نہیں ہوتی ہے، تب یہ سب چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ لوگ یہ تمام غلطیاں، برائیاں کرتے ہیں، اور انہیں ہوشیار کہا جاتا ہے۔ صحیح معنوں میں وہ عیار ہیں، مکار ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر حیا نہیں ہے، شرم نہیں ہے۔ ان کے اندر اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس مہم کا پیغام ہی یہی ہے کہ ہر شخص کے اندر اخلاقی محاسن پیدا ہوں۔ مکارم اخلاق پیدا ہوں۔ اگر یہ چیزیں ختم ہوجائیں تو سماج کی 90 فیصد برائیاں ختم ہو جائیں گی۔ سماج سدھار کی بہت ساری کوششیں ہو رہی ہیں لیکن اس جانب توجہ نہیں دی جارہی ہے تو جماعت اسلامی ہند نے ایک ملک گیر سطح کی مہم چھیڑی ہے اور اس کا پیغام ہم ایک ایک فر د تک لے جائیں گے۔ انتظامیہ، پولس، عدلیہ جو کچھ کرسکتے ہیں، کر رہے ہیں لیکن سماج میں اگر یہ بیداری نہیں آتی ہے تو سماج میں کبھی بھی آپ ان برائیوں کو ختم نہیں کرپائیں گے۔ اس لئے اس مہم کو چھیڑنے کی ضرورت پڑی ہے۔ اس طرح کے کام کو زندگی بھر کرنے کی ضرورت ہے۔
آپ نے دیکھا کہ پہلے بچے بڑوں کے سامنے نہیں بولتے تھے لیکن بچے اب ٹپ ٹپ ٹپ بولتے رہتے ہیں۔ کبھی بڑے لوگ بھی جو غلط چیزیں ہیں —منشیات، شراب، پان، بیڑی، سگریٹ وغیرہ — پہلے چھپ چھپا کر کرتے تھے۔ اب کھلے عام کرتے ہیں۔ اسی طرح سے زنا، فحاشی، عریانیت، یہ سب چیزیں بھی عام ہو گئیں۔ پہلے لوگ چھپ کر سنیما ہال میں جاتے تھے فلم دیکھنے کے لئے۔ اب تو ہر ہاتھ میں کمپیوٹر، موبائل ہے تو ہر گھر سنیما ہال بنا ہوا ہے۔
کمال بات یہ ہے کہ تمام برائیوں کو’آزادی‘ نام دیا جارہے۔ یہ سب ہماری آزادی ہے۔ اس پر ہمارے والدین نہیں ٹوکیں گے، ٹیچر نہیں ٹوکیں گے، سماج کے بوڑھے بزرگ نہیں ٹوکیں گے۔ نوجوان live-in-relationship بناتے ہیں، لڑکے، لڑکیاں girl friend, boy friend رکھے ہیں ……اور سماج کا کوئی فرد ٹوکتا ہے تو اسے دقیانوس کہا جاتا ہے۔ یہ جو بے حیائی آئی ہے ہمارے سماج میں، جو خرابیاں ہیں، انہیں دور کرنے کے لئے، بیداری پیدا کرنے کے لئے یہ مہم چلائی جا رہی ہے۔ ان برائیوں کو دور کرناہم سب کی ذمہ داری ہے۔ جماعت اسلامی ہند نے اس میں پہل کی ہے۔ سب لوگ انشاء اللہ ساتھ آئیں گے، یہ پیغام عام ہوگا، ہمارا ملک، سماج اور گھر ایک بار پھر جنت نشاں بنے گا، انشاء اللہ۔

ڈاکٹر شہناز بیگم
عورتوں کے ساتھ مظالم ہو رہے ہیں یا پھر نوجوانوں میں جو جنسی اور اخلاقی دونوں طرح کی بے راہ روی پائی جارہی ہے یا پھر الکحل اور ڈرگس کا بڑھتا ہو ا جو رجحان ہے، اس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ پراگندہ ہو رہا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی صحت اور کیریئر پر اس کا اثر پڑ رہا ہے۔ ان ساری چیزوں کے خلاف ہم عوام میں بیداری پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ہماری کوشش ہے کہ ہر شخص یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ واقعی ہم نے اگر اپنے morals کو اپنی زندگی سے ہٹا دیا ہے تو اس کا بھیانک انجام کیا ہوا ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ سب لوگ ایک جٹ ہو کر،جہاں جہاں ممکن ہو، مل جل کرہم لوگ کوشش کریں، مرد عورت بھی، بچے بچیاں بھی، ہر طبقے کے لوگ، ہر مذہب کے لوگ اس صورتحال پر چنتن کریں اور اپنے سماج کے اندرکچھ ایسا provision رکھیں جس کو قانونی acceptanceبھی ہو کہ ہم اپنی زندگی کو بغیر اخلاقیات کے نہیں چلائیں گے۔ ہر ایک کے قاعدے قانون ہیں، ان کے خلاف اگر کچھ ہوتا ہے تو اس کی سزا بھی ہونی چاہئے۔ اس سزا کو عملی طور پر اپنانا بھی ہوگا۔ سماج جب تک اس طرح کا سدھار آپس میں مل جل کر نہیں کرے گاتب تک صحت مند معاشرے کی تشکیل نہیں ہوگی۔ سب کچھ حکومت اور عدلیہ پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پورے سماج کو بدلنا ہوگا، اپنی نفسیات بدلنی ہوگی۔
ڈاکٹرزیبائش فردوس
ہم معاشرے میں اخلاقی قدروں کے تئیں بیداری پید کرنا چاہتے ہیں۔ جس طرح کی آزادی اور ’میر ی زندگی،میری مرضی‘ slogan کے پیچھے ہم بھاگ رہے ہیں، اس سے معاشرے کو ہو رہے نقصانات کااحساس دلانا چاہتے ہیں۔ ہم کچھ اصولوں سے وابستہ ہیں، جس کو followکرتے ہوئے ہی ہم حقیقی آزادی پا سکتے ہیں۔ اخلاقی قدروں کو چھوڑ کر جو آزادی ہم چاہتے ہیں وہ حقیقت میں آزادی نہیں، بلکہ ایک طرح سے غلامی ہے۔ ہم اس پیغام کو door to doorاور تمام عوام الناس بغیر کسی تفریق ذات، برادری، مذہب لوگوں تک پہنچاناچاہتے ہیں۔ ہماری گزارش ہوگی کہ جتنے زیادہ سے زیادہ افراد اس مہم میں حصہ داری ادا کریں گے اس مہم میں ہمارا تعاون ہوگا۔ اس سے انشاء اللہ معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی نظر آئے گی کیوں کہ یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے۔

زیبا آفتاب
خواتین پر ہورہے مظالم کو لے کر ملک میں غم و غصے کی لہر ہے۔اس کی اصل وجوہات کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لئے جماعت نے یہ مہم شروع کی ہے۔ میڈیا سے اپیل ہے کہ وہ مہم کے پیغام کو ملک کے کونے کونے تک پہنچانے میں ہماری مدد کرے۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*