جماعت اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے بعد گاندھی جی نے کہا تھا:’اگر موقع ملا تو میں پھر فقیروں کے اجتماع میں آؤں گا اور پیدل آؤں گا‘

جماعت اسلامی ہند بہار کے زیر اہتمام 13 مارچ، 2022 کو پٹنہ واقع دفتر حلقہ میں معروف صحافی اور پریس کلب آف انڈیا کی مجلس عاملہ کے منتخب  رکن اے یو آصف کا ایک لکچر ہوا۔ لکچر کا عنوان تھا، ’بہار میں جماعت اسلامی ہند کی تاریخ‘۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے لکچر کے دوران جناب آصف نے جماعت کے نظریات، نشو و نما اور بہار سے متلعق تاریخ پر روشنی ڈالی۔جناب آصف کا تعلق بہار کے دربھنگہ ضلع سے ہے۔ نصف صدی پر محیط صحافتی زندگی کی ابتدا میں وہ تیرہ برسوں تک ’ریڈئینس ویکلی‘ سے وابستہ رہے ہیں۔ وہ مختلف تحریکات بشمول اسلامی تحریک کے ماہر ہیں۔ لکچر کو اختصار کے ساتھ پیش کر رہے ہیں سید جاوید حسن۔

……………………

تحریک اسلامی عالمی جنگ اول اور دوم کے درمیان بپا ہوئی تھی۔ اس تحریک نے فکری اور نظریاتی طور پر دنیا کو بہترین لائحہ عمل دیا۔ یہ تحریک اور اس کا نظریہ آج بھی زندہ ہے اور وہ اپنا وجود منوانے میں کامیاب ہے۔ 
مارچ 1941کے شمارے میں ’ترجمان‘ کے مدیرسید ابوالاعلیٰ مودویؒ نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں انہوں نے ایک اصلاحی جماعت کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اس مضمون کے نتیجے میں 25 تا 31 اگست، 1941 کو لاہور میں ایک اہم نشست ہوئی تھی، جس میں جماعت اسلامی کی تاسیس ہوئی تھی۔ اسی تاسیسی نشست میں جماعت اسلامی کی شکل میں ایک فکری و نظریاتی تحریک و تنظیم وجود میں آئی۔یہ وہ دور تھا جب سوشلزم اور آرایس ایس کا ہندوتوادی نظریہ پروان چڑھنے لگا تھا۔
 اس تاسیسی نشست میں 75 افراد شریک ہوئے تھے جن میں بہار سے دو لوگوں کی نمائندگی ہوئی تھی۔ان میں ایک شاہ محمد جعفر پھلواروی اور دوسرے امام الدین فائق شامل تھے۔امام الدین فائق مشہور عالم دین تمنا عمادی کے صاحبزادے تھے۔
تاسیس جماعت اسلامی سے قبل تین افراد مولانا مودودی ؒ کے رابطے میں آئے تھے، ان میں بہار کے محمد حسنین سید جامعیؒ شامل تھے۔جناب حسنین سید کو بعد میں امیر جماعت مولانا مودودی ؒ کے مشورے پر پٹنہ میں مرکزی دفتر قائم کرکے مشرقی ہند کا قیم بنایا گیا تھا۔ یہ وہی حسنین سید تھے جنہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ڈاکٹر راجندر پرساد کو مدعو کیا تھا۔ تب راجندر پرساد نہ تو کانگریس کے صدر تھے اور نہ ہی صدر جمہوریہ ہند۔
تاسیس جماعت کے بعد جماعت کا پہلااجتماع دربھنگہ میں 21 تا 23 اکتوبر، 1943 کو ہوا تھا۔ اس کے بعد 1944 میں پٹھان کوٹ میں دوسرا علاقائی اجتماع ہوا تھا۔
1941 کے ستمبر کے ’ترجمان‘ سے اس زمانے میں عالم اسلام کی ایک بڑی شخصیت مولانا مسعود عالم ندوی کو جماعت کی تاسیس کی اطلاع ملی تھی۔ انہوں نے فوراً مولانا مودودیؒ سے رابطہ قائم کیاتھا۔تب مولانا مسعود خدابخش لائبریری کے کیٹلگرتھے جن کا عہدہ ڈائرکٹر کے برابر کا ہوا کرتا تھا۔  
ستمبر تادسمبر1941 کے درمیان بہار کے کئی دیگر افراد جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے۔ ان میں تقی الدین نعمانی ؒبھی تھے، جن کا تعلق چمپارن سے تھا۔انہوں نے دین و دانش مکتبہ قائم کیا تھا۔
پٹنہ کے شاہ محمد ہارون کے تین بیٹے بھی تحریک سے وابستہ ہوکر ارکان جماعت بنے—  بڑے بیٹے ڈاکٹر نورالعین ڈینٹسٹ،منجھلے قرۃ العین اور تیسرے بیٹے شاہ محمد قاسم تھے۔ ڈاکٹر نورالعین نے امارت مقامی، پٹنہ کی بھی ذمہ داری نبھائی۔ شاہ محمد قاسم پاکستان منتقل ہو گئے اوروہاں کی جماعت کے رکن ہو گئے۔وہ با حیات ہیں جبکہ اول الذکر دونوں بھائی انتقال کر گئے۔
ابتدائی دنوں میں ان تینوں بھائیوں کا بہار میں جماعت سازی میں انتہائی اہم رول رہا ہے۔ امیر مقامی، پٹنہ ڈاکٹر نورالعین کی تحریک پر فقیہ اسلام اور مدیر ’زندگی‘ سید احمد عروج قادری جماعت سے قریب ہوئے اور پھر رکن جماعت بنے۔انہوں نے تاحیات جماعت کی مختلف ذمہ داریاں انجام دیں۔  پھر ڈاکٹر سید ضیاء الہدیٰ جماعت سے وابستہ ہوئے۔اس طرح 1941 میں تین چار مہینے کے دوران تقریباً پندرہ اہم شخصیات تحریک سے جڑیں جنہوں نے ابتدائی دور میں جماعت اسلامی کی نشو و نمامیں اہم رول ادا کیا۔
محمد شفیع داؤدی کی جماعت اسلامی سے وابستگی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ شفیع داؤدی مظفرپور کی ایک بستی داؤدنگر کے رہنے والے تھے۔ تحریک آزادی کے بڑے رہنما،ٹاپ کانگریس لیڈراورنیتاجی سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج سے وابستہ تھے۔ انہوں نے 1931  میں راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں شرکت کی تھی۔شفیع داؤدی نے پٹھان کوٹ میں 1945 میں ہوئے جماعت اسلامی کے پہلے آل انڈیا اجتماع میں شرکت کی تھی۔یہیں مولانا مودودی ؒاور جماعت اسلامی کے دیگر رفقا سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔
1943 میں،جب کہ جماعت کی تاسیس کو دو سال ہو چکے تھے، اس وقت علماء کی طرف سے شدیدمخالفت ہو رہی تھی۔ کوئی کسی علاقے میں اجتماع کرنے کی ہمت نہیں جٹا پا رہا تھا۔ یہ اندیشہ تک ہو چلا تھا کہ جماعت اسلامی برقرار رہ پائے گی یا نہیں۔ ان حالات میں حسنین سید صاحب نے بہارکے امیرجماعت مولانا مسعود عالم ندوی سے کہا کہ کیوں نہیں پٹنہ میں اجتماع کر لیتے ہیں۔اس پر مولانا ندوی نے کہا کہ مخالفت کے اس ماحول میں میں پٹنہ میں اجتماع نہیں کر سکتا۔ آپ  ] حسنین سید[ہی کیوں نہیں دربھنگہ میں اجتماع کر لیتے ہیں۔ آپ کا داعیانہ انداز ہے اور آپ کو کسی سے خوف بھی نہیں ہے۔اس تجویز پر حسنین سید نے مولانا مودودیؒ سے مشورہ کیا اورمولانا مودودی ؒ نے حسنین سید کی صلاحیتوں کے مد نظر رضامندی کا اظہار کر دیا۔اس طرح 21 تا 23 اکتوبر، 1943 کواجتماع کی تاریخ مقرر ہوئی۔ اس اجتماع میں پورا مرکز اٹھ کر آگیا۔ ان میں میاں طفیل محمد، مولانا امین حسن اصلاحی، مولانااخترا حسن اصلاحی، مولاناصدرالدین اصلاحی،ملک نصراللہ خان عزیز،نعیم صدیقی جیسی شخصیتیں شامل تھیں۔ اس کے علاوہ، اس اجتماع میں دربھنگہ کی اہم شخصیات، نیپال کی ترائی، گورکھپور، بنگال تک سے لوگ جمع ہو گئے۔ یہ اجتماع کامیاب رہا۔ اسد گیلانی ’جماعت اسلامی کی تاریخ‘ میں لکھتے ہیں کہ’جماعت اسلامی کی پالیسی وپروگرام کا سلسلہ جو اب بھی جاری ہے، اس کی ابتدا دربھنگہ کے اسی اجتماع سے ہوئی۔‘
قابل ذکر امر ہے کہ اجتماع کے پہلے دن جامع مسجد، لہیریا سرائے میں مولانا مودودی ؒ کا خطبہ رکھا گیا تھالیکن مقامی لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے وہ خطبہ نہیں ہو سکا۔ تیسرے دن ٹاؤن ہال، دربھنگہ میں خطاب عام رکھا گیا تھا۔ مقامی لوگوں کی مخالفت اتنی شدیدہوئی کہ مولانا نے جانے سے انکار کر دیا۔ مولانا امین احسن صاحب جیسے ہی مائک پر آئے حکیم سوزاں صاحب نے مائک پکڑ لیا اور خطاب نہیں کرنے دیا۔ ان کے جواب میں مولانا عبدالاحد قاسمی صاحب کھڑے ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ ہمارے مہمان ہیں۔ ان کی تقریر ہوگی۔ کوئی روک نہیں سکتا ہے۔ حکیم سوزاں صاحب سہسرام کے رہنے والے تھے، ان کے ہی صاحبزادے انیس الدین صاحب بعد میں امیر حلقہ بہار بنے،اورمولانا عبدالاحد صاحب جالے کے رہنے والے تھے، جن کے صاحبزادے قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب بعد میں امارت شرعیہ کے قاضی القضاۃ بنے۔
 دربھنگہ کے کامیاب اجتماع کے بعد سے دیگر اجتماعات کی باڑھ سی لگ گئی۔ وہ جو خوف و ہراس کی فضا تھی، کسی حد تک ختم ہوئی۔
تقسیم سے قبل بہار میں جب بڑا ہولناک فساد ہوا تھا تب شفیع داؤدی نے انتہائی اہم کام کیا تھا۔اس دوران انہوں نے جگہ جگہ جاکر اور کھل کر جماعت کی دعوت کو پیش کیا تھا۔ 1947 کے اوائل میں جب پٹنہ میں جماعت اسلامی کا اجتماع ہوا، اس دواران شفیع داؤدی صاحب حسنین سید صاحب کو لے کر گاندھی جی سے ملنے گئے تھے اور اجتماع میں شرکت کی درخواست کی تھی۔ اس وقت گاندھی جی فساد کی آگ کو ٹھنڈاکرنے کے لئے پٹنہ آئے ہوئے تھے۔ گاندھی جی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اجتماع میں ضرور آئیں گے۔
شفیع داؤدی صرف گاندھی جی کے دوست نہیں تھے، بلکہ گاندھی کو گاندھی بنانے والے تھے۔جب گاندھی جی راج کمار شکلاکی درخواست پر چمپارن گئے تھے، تب انہوں نے شفیع داؤدی کے مظفرپور واقع ’شفیع منزل‘ میں پانچ دنوں تک قیام کیا تھا۔اس دوران شفیع داؤدی نے اس وقت کے بڑے لیڈروں سے گاندھی جی کی ملاقات کرائی تھی۔ اس طرح چمپارن ستیہ گرہ کی پلاننگ میں شفیع داؤدی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
 اجتماع سے قبل حسنین صاحب نے گاندھی جی سے کہا تھا کہ آپ کو اسٹیج پر نہیں، نیچے دری پر بیٹھنا ہوگا۔اس پر گاندھی جی نے رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں آؤں گا، میں سننا چاہتا ہوں کہ فقیروں کا اجتماع کیسا ہوتا ہے۔ جب گاندھی جی پتھر کی مسجد واقع دفتر حلقہ کے قریب اجتماع گاہ میں تشریف لائے تب ان سے دوسری درخواست کی گئی کہ ان کی دونوں ششیائیں گاندھی جی کے ساتھ نہیں، بلکہ خواتین کے گروپ میں بیٹھیں گی۔یہ درخواست دہلی سے آئے ایک اسکول کے پرنسپل اور پٹنہ میں فساد زدہ افراد کے لئے بنائی گئی اولین جماعت ریلیف کمیٹی کے انچارج غازی عبدالجبار صدیقی نے کی تھی۔ گاندھی جی نے یہ درخواست بھی قبول کر لی۔خواتین کے سکشن میں دونوں ششیاؤں کی میزبانی نوعمر عبدالمعیز نے کی تھی۔ اس اجتماع میں مولانا مودودی ؒ تشریف نہیں لائے تھے۔نائب امیر جماعت مولانا امین حسن اصلاحی خطبہ صدارت پیش کر رہے تھے۔ گاندھی جی بڑے غور سے خطبہ سن رہے تھے۔ گاندھی جی نے کہا تھا، ’مجھے بہت اچھالگا،فقیروں کے اس اجتماع میں آکر۔یہ وہ فقیر نہیں ہیں جو بھیک مانگتے ہیں، یہ نیکی کے نگہبان فقیر ہیں۔ اگر انہوں نے پھر مجھے بلایا اورمجھے موقع ملاتومیں پیدل چل کر آؤں گا۔ اس بار تو میں موٹر گاڑی پر آیا ہوں۔‘
دوسری جانب، مکتبہ اسلامی، لہیریاسرائے کوتحریک اسلامی کا پہلا مکتبہ ہونے کا فخر حاصل رہا ہے۔یہاں کی مطبوعات میں امین احسن اصلاحی کی ’پردہ اور قرآن مجید‘، عبدالسلام نعیم صدیقی کی ’اسلام کا مطالبہ حق‘ اور حسنین سید جامعی کی ’ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے صحیح راہ عمل‘  شامل ہیں۔ مولانا مودودی ؒ کے مشورے پر محمد حسنین سید جامعی نے یہ مکتبہ قائم کیا تھا۔یہ تب کی بات ہے  جب مکتبہ ترجمان القرآن تھا، مکتبہ اسلامی قائم نہیں ہوا تھا۔بعد میں جب جماعت اسلامی کا مکتبہ قائم ہوا، وہ اسی نام سے موسوم ہوا۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بہار کو مکتبہ اسلامی  کا full fledge concept اور نام دینے کا بھی سہرا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی، ’دین و دانش‘ نام کا جو مکتبہ بناتھا،تقی الدین نعمانی ؒ کا وہ بھی تقسیم سے قبل ہی قائم ہوا تھا اور اس کا سہرا بھی بہار کے سر جاتا ہے۔  
ان تمام تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک اسلامی کے فروغ میں بہار کتنا اہم رول ادا کرتا رہا۔  
تقسیم ہند سے قبل کے افراد میں کمہرولی کے ذکی اشرف، معروف شاعر کلیم عاجز کے برادر عزیز نسیم احمد اور ماہر معاشیات ڈاکٹرعبدالمعیز منظر جیسے نوعمر بھی شامل ہیں جو کہ عشق مودودی ؒ میں اپنے گھروں سے بھاگ کر ان سے ملنے چلے گئے تھے۔ عبدالمعیز منظر کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے برصغیر میں سب سے پہلے پٹنہ میں ’ادارہ ادب اسلامی قائم کیا تھا۔   
تقسیم ہند سے قبل کے لوگوں میں رانچی کے عبدلرحمان کامی اور گیاکے طیب عثمانی ندوی کی خدمات بھی قابل ذکر ہیں۔ 
تقسیم ہند کے بعد بہار کی سرگرمیوں اور شخصیات کو سمیٹنے کے لئے الگ سے ایک اور لکچر کی ضرورت ہے۔ تاہم ڈاکٹر سید ضیاء الہدیٰ، انیس الدین احمد،حبیب اللہ چترپوری کا ذکر یہاں پر لازمی محسوس ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ، موجودہ دور کے دیگر امرائے حلقہ کی ایک طویل فہرست ہے، جنہوں نے جماعت اسلامی ہند بہارکو آگے بڑھایا ہے اور مرکز میں نمائندگی کرتے ہوئے تحریک اسلامی کوپروان چڑھایا ہے۔ ان سب کی خدمات قابل تعریف ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین!

……………………

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*