
محمد سمیع احمد
پٹنہ: جماعت اسلامی ہند، بہار کے زیر اہتمام خواتین کی ریاستی قیادت کے لیے منعقدہ دو روزہ تنظیمی و تربیتی پروگرام 28 ستمبر کواختتام پذیر ہوگیا۔ اس موقع پر تحریک اسلامی میں خواتین کے مرکزی کردار، قربانی کی ضرورت اور نظم و ضبط کی اہمیت پر خصوصی زور دیا گیا۔ پروگرام میں مختلف اضلاع سے شریک خواتین کے لیے ورکشاپس، مباحثے اور ترغیبی نشستیں شامل تھیں تاکہ ان میں قیادت کی صلاحیتوں کو مزید مستحکم کیا جا سکے۔
دوسرے دن کے کلیدی خطاب میں امیر حلقہ مولانا رضوان احمد اصلاحی نے جماعت میں اراکین اور ناظمات کی کمی کے اسباب پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ یہ کمی دراصل اس ذہنیت کی وجہ سے ہے کہ دین کے قیام کے کام کو ہم اپنی ذاتی ذمہ داری نہیں سمجھتے،بلکہ اسے انبیاء، علما یا مردوں کی ذمہ داری تصور کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ غلط فہمی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
مولانا اصلاحی نے اسلامی تاریخ کے حوالوں سے واضح کیا کہ خواتین ہمیشہ دین کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کا لقب ”اُمّتِ وسط” مردوں کی طرح عورتوں پر بھی یکساں طور پر صادق آتا ہے۔ شعب ابی طالب کے محاصرے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کٹھن مرحلے میں صرف مرد ہی نہیں،بلکہ خواتین نے بھی صعوبتیں برداشت کیں۔ اسی طرح مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے دوران خواتین نے نمایاں خدمات انجام دیں، حتیٰ کہ بازاروں کے قیام میں بھی وہ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔ حضرت خدیجہؓ اور حضرت عائشہؓ کی زندگیاں اس کی روشن مثالیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ خواتین کی دین کے ساتھ وابستگی اور خدمات کے سنہرے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ ان میں اتنی صلاحیت اور قوت ہے کہ وہ برائیوں کو مٹا کر بھلائیوں کو بہترین انداز میں فروغ دے سکتی ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے حضرت ہاجرہؑ، اور حضرت موسیٰؑ کی والدہ و بہن کے کردار کو بطور مثال پیش کیا۔
مولانا اصلاحی نے کہا کہ دین کے قیام کا کام قربانی اور اخلاص کے بغیر ممکن نہیں۔ انہوں نے قرآن کی یہ آیت پڑھی: ”لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ” (آل عمران: 92) — ”تم نیکی کو ہرگز نہیں پا سکتے جب تک اپنی محبوب چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔“ انہوں نے وضاحت کی کہ وقت، وسائل اور آرام جیسی محبوب چیزوں کو حق کی راہ میں ترجیح دینی ہوگی۔
انہوں نے تنظیمی نظم و ضبط پر بھی زور دیا اور کہا کہ دیگر تمام خوبیوں کے باوجود اگر تنظیمی ڈھانچے کی پابندی نہ کی جائے تو جماعت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ”باقاعدگی، استقامت، باہمی تعاون اور اجتماعی روح کسی بھی تنظیم کے لیے ناگزیر ہیں۔” جنگ اُحد کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کس طرح نظم کی کمی کے سبب نقصان اٹھانا پڑا۔
مولانا نے مزید کہا کہ افراد کی کمی اصل مسئلہ ہے اور جب لوگ موجود بھی ہوں تو ربط و ضبط کی کمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے، خصوصاً خواتین کے درمیان۔ ان میں یکجہتی، سننے اور ماننے کی روح، عزم اور حوصلے کی کمی مقاصد تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔
پروگرام کے اختتام پر جماعت اسلامی ہند کی قومی سیکریٹری محترمہ شائستہ رفعت نے خطاب کیا۔ انہوں نے قرآن کی یہ آیت (42:20) پڑھی: ”مَن کَانَ یُرِیدُ حَرْثَ الْآخِرَۃِ نَزِدْ لَہُ فِی حَرْثِہِ وَمَن کَانَ یُرِیدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِہِ مِنْہَا وَمَا لَہُ فِی الْآخِرَۃِ مِن نَّصِیبٍ”۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس تربیت سے حاصل شدہ علم کو عملی زندگی میں نہ اپنایا گیا تو یہ دو دن کی محنت ضائع ہو جائے گی۔
شائستہ رفعت نے کہا کہ یہ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ پورے ملک میں بے شمار مسلمان خواتین ہیں جو بہت کچھ کر سکتی ہیں، مگر اللہ نے ہمیں اپنی تحریک کا پرچم بردار بنایا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس نعمت پر شکر گزار ہوں اور اس مقام کو بہترین طریقے سے استعمال کریں۔ اختتامی نشست دعا اور شکریے کے ساتھ مکمل ہوئی۔
صبح کے اجلاس میں مشاورتی کمیٹی کی رکن منور سلطانہ نے حدیث کے حوالے سے ذکر و دعا کی اہمیت پر خطاب کیا۔ اس کے بعد شائستہ رفت نے ”جانشینی کی منصوبہ بندی” پر ورکشاپ کا اہتمام اور سورہئ آل عمران (آیت 81) کی روشنی میں مستقبل کی قیادت تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اکیسویں صدی خیالات اور مواقع کی صدی ہے، جہاں باطل مہارت کے ساتھ مضبوط ہے اور حق کمزور نظر آتا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے 3-ایس فارمولا دیا: صلاحیت، صالحیت اور صلابت۔
ڈاکٹر شہناز بیگم (رکن شوریٰ بہار) نے قیادت کی خصوصیات جیسے امانت، عدل، احسان، شجاعت اور صلاحیت پر ورکشاپ کا اہتمام کیا۔ انہوں نے محض کتابی علم اور حقیقی حکمت کے فرق کو واضح کیا اور ترقی کے لیے چند اصول بیان کیے: قول و فعل میں یکسانیت، مستقل مزاجی، حالات پر نظر، ماحول کے مطابق ڈھلنا اور جذبات پر قابو۔
مقامی سطح پر کام کے فروغ پر بحث میں زیبا آفتاب (مظفرپور)، فاطمہ پروین (ارریہ)، ماریہ بصری (اسراہا) اور شبانہ منصور (ہسوا) نے اظہارِ خیال کیا۔
اس دوران مہمان خصوصی سماجی رکن کاماینی نے خواتین کو سماجی مسائل اور قیادت کے کردار پر سرگرمیوں میں شامل کیا۔
بعد دوپہر اجلاس کی نظامت زیبا آفتاب نے کی، جس میں رابعہ بصری (معاون سکریٹری، جماعت اسلامی ہند) نے ”کیڈر کو فعال بنانے” پر خطاب کیا۔ انہوں نے تین مراحل بیان کیے: صلاحیتوں کی شناخت، نرم رویہ اپنانا، اور عزت افزائی کے ساتھ حوصلہ دینا۔ انہوں نے سیرتِ رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے واقعات سے مثالیں دیں۔ ایک مختصر ڈاکیومنٹری کے ذریعے انہوں نے کہا: ”حوصلہ وقتی ہے، لیکن نظم مستقل ہے۔”
انہوں نے کہا کہ کارکنوں کو ان کی صلاحیت کے مطابق ذمہ داریاں دینی چاہئیں اور جماعتی مشن پر ہمہ وقت توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ فوری نتائج کے بجائے معیاری کام کو ترجیح دینا ہی کامیابی کا راستہ ہے۔
-بہ شکریہ ریڈئنس نیوز

