پٹنہ: 15 دسمبر، 2024
خاندانی نظام کو مستحکم اور ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے مقصد سے جماعت اسلامی ہند، بہار کے زیر اہتمام مرکز اسلامی، پٹنہ میں 14اور 15 دسمبر کو دو روزہ فیملی کاؤنسلنگ ورکشاپ کاانعقاد کیا گیا۔ ورکشاپ سے جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری ڈاکٹر محی الدین غازی، اسسٹنٹ سکریٹری خالدہ پروین اور امیر حلقہ مولانا رضوان احمد اصلاحی نے خطاب کیا۔ ورکشاپ میں بہار، جھارکھنڈ و مغربی بنگال واقع فیملی کاؤنسلنگ سنٹرکے ذمہ داروں نے شرکت کی جن میں اچھی خاصی تعداد میں خواتین بھی شامل تھیں۔
ڈاکٹر محی الدین غازی نے ’فیملی کاؤنسلنگ کے اصول، طریقہ کار اور اخلاقیات‘، ’شوہر اور بیوی کے درمیان محبت کی کنجیاں‘، ’اصلاحی کے کچھ فارمولے‘ اور’ایک دوسرے کی کمیوں کے ساتھ جینا سیکھیں‘ جیسے موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ازدواجی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم کمیوں کو اپنے دماغ پر مسلط نہ کریں، بلکہ ان کمیوں کے ساتھ زندگی گزارنا سیکھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنا مقابلہ کبھی دوسروں سے نہیں کرنا چاہئے، بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ ہم جس حال میں ہیں، وہ کتنا اطمینان بخش ہے۔ انہوں نے کہا کہمیاں بیوی میں موجود اچھی باتوں کا نہ صرف ایک دوسرے کو اعتراف کرنا چاہئے، بلکہ ان کی قدر بھی کرنی چاہئے۔
محی الدین غازی نے کہا کہ پہلے کے مقابلے آج کی کے حالات مختلف ہیں۔ گاؤں سے شہر کی طرف منتقلی، چھوٹا خاندان، پروفیشنل لائف وغیرہ نے زندگی کو قدرے پیچیدہ بنا دیا ہے۔لیکن صدیوں پرانی اسلامی قدروں پر عمل کرتے ہوئے ہم تمام پیچیدگیوں کو دور کر سکتے ہیں۔ ماں باپ کی خدمت اور میاں بیوی کے حقوق کچھ ایسی قدریں ہیں جن سے ہم صرف نظر نہیں کر سکتے۔ان دونوں کو ساتھ لے کر ہی ہم خوشگوار ازدواجی زندگی گزار سکتے ہیں۔
خالدہ پروین نے ’کاؤنسلر کے کردار‘ اور ’فیملی کاؤنسلنگ سنٹر کے عملی تجربات‘کے تحت گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیملی کاؤنسلنگ سماجی خدمت کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ سماج کو بگاڑ سے بچانے میں کاؤنسلر کا بہت بڑا رول ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک کاؤنسلر وسیع القلب اور دور اندیش ہوتا ہے۔ایک کاؤنسلر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ بولتا کم اور سنتا زیادہ ہے۔ ایک اچھے کاؤنسلر کی پہچان یہ ہے کہ وہ باتوں کو ہمہ تن گوش ہوکر سنے۔ یہی وجہ ہے کہ 95 فیصد کاؤنسلنگ سننے سے ہوجاتی ہے۔
خالدہ پروین نے کہا کہ اچھا مشورہ ایک بہترین صدقہ ہے۔ اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کاؤنسلر کو چاہئے کہ وہ کاؤنسلنگ سنٹر میں آئے لوگوں کو بہترین مشورے دے۔ اس کے ساتھ ہی وہ لوگوں سے خوش اسلوبی اور گرم جوشی سے پیش آئے۔
اختتامی خطبہ میں مولانا رضوان احمد اصلاحی نے کہا کہ اسلام کا آخری پڑاو خاندان اور مسجد ہے۔ ان دونوں اداروں پر بھی بری نظر لگی ہوِئی ہے۔ آج مسلمانوں کے کئی اداروں اور قدروں کو نیست و نابود کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جن میں اسلامی خاندانی نظام بھی شامل ہے۔ مسلمانوں کا نجی مسئلہ ان کے تحفظ اور ترقی عین شرعیت کا تقاضا ہے۔معاشرے کی تعمیر اور اصلاح امت عین مسلمانوں کے فرِائض میں شامل ہیں۔ تعمیر معاشرہ اور خاندان کے تحظ وترقی کے لیے فیملی کونسلنک کے ادارے کاقیام ضروری ہے۔ اس سے دارالقضاء،دارالافتاء،کورٹ عدلیہ،سرکار اور پولس اور انتظامیہ کا کام آسان ہے۔ ان کے بوجھ کو کم کرنے میں فیملی کونسلنگ سینٹر س معاون بنیں گے۔
مولانا رضوان احمد نے کہا کہ اسلامی خاندانی نظام کو برقرار رکھنا ہم سب کا فریضہ ہے۔ خاندانی نظام کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے ایک اہم ذریعہ کاؤنسلنگ سنٹر ہے۔کاؤنسلنگ سنٹر نہ عدالت ہے نہ دارالقضا ہے اور نہ دارالافتا۔یہ وہ ادارہ ہے جہاں عالم دین، قانون داں اور ماہر نفسیات ایک کاؤنسلر کی حیثیت سے کاؤنسلر فریقین کوسن کر اور انہیں مشورہ دے کر حالات کو بہتر بنانے میں ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔
مولانا رضوان احمد نے کہا کہ کاؤنسلنگ سنٹر کے کاؤنسلروں کوقانونی اور شرعی امور کی بنیادی جانکاریاں ہونی چاہئے۔جماعت اسلامی ہند، بہار کے زیر اہتمام فی الحال ریاست کے آٹھ اضلاع میں کونسلنک سینٹر کھولنے کا منصوبہ ہے
ورکشاپ میں جماعت اسلامی ہند،بہار کے سکریٹری نثار احمد، رکن شوریٰ حلقہ بہار مولانا لطف اللہ قادری، شعبہ کمیونل ہارمنی کے سکریٹری محمد شہزاد، ملی امورکے سکریٹری ضیاء القمر،پی آر کے سکریٹری محمد شوکت علی،ایج آر ڈی کے سکریٹری انتخاب عالم شمسی،خدمت خلق کے سکریٹری سلطان احمد صدیقی اور ایڈوکیٹ اقبال مسیحا نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر شرکا نے گروپ میں کس اسٹڈی پیش کیا۔
Be the first to comment