ڈاکٹر رفعت کے سامنے تعمیر جہاں کا مکمل خاکہ تھا: پروفیسر ایم ایم آر اختر

“ڈاکٹر محمد رفعت سادہ زندگی اونچی سوچ کے آدمی تھے، ان کا علم بڑا تھا یا تقویٰ اس کا تعین بہت مشکل ہے،میری سمجھ سے ان کے علم پر ان کا تقویٰ بھاری تھا،وہ نہایت ہی خلیق،ملنساراورخداداد صلاحیت کے حامل تھے، ان کے انتقال سے ملک وملت میں ایک بڑا خلاء واقع ہوگیا ہے“۔ ان خیالات کا اظہار مولانا رضوان احمد اصلاحی امیر حلقہ جماعت اسلامی ہندبہار نے جماعت اسلامی ہند پٹنہ کی جانب سے 10 جنوری، 2021 کومرکز اسلامی میں ڈاکٹر محمد رفعت کی یاد مین منعقد ایک تعزیتی اجلاس میں کیا-

مولانا رضوان احمد اصلاحی نے مزید بتایا کہ مرحوم سے میری آخری ملاقات ۲۱/دسمبر ۰۲۰۲کو مرکز جماعت اسلامی ہندکی مسجد میں اچانک ہوئی،اکابرین جماعت میں سے جن چند لوگوں سے میری غیرمعمولی بے تکلفی تھی ان میں ایک نام مرحوم کا تھا،تحریر کی طرح مربوط تقریرہم نے ان کی ہی سنی ہے،ان کی نماز پر مجھے رشک آتا اور اپنی نماز پرترس آتا،۔ ان کے اندر انسانیت کا درد کوٹ کوٹ کر بھراتھا، لاک ڈاون کے دوران انسانیت بالخصوص مزدوروں کی بے بسی دیکھ کر وہ تڑپ اٹھے،بالاخر ڈپسریشن کے مریض بن گئے،۔امیرحلقہ نے ان سے کئی ذاتی اورجماعتی مراسم کے تذکرے کئے، ان کی رحلت سے بالخصوص تحریک اسلامی اور بالعموم علمی اور تحقیقی حلقہ میں زبردست خلاء واقع ہو گیا۔ اللہ ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔

اس موقع پر جناب شبیر عالم خان نے جذباتی انداز میں ڈاکٹر صاحب مرحوم سے اپنی قربت اور ان کی موت پر غم کا اظہار فرمایا،موصوف نے بتایا کہ ڈاکٹر محمد رفعت صاحب کی دو نمایاں خوبیاں یاد رکھی جائیں گی، ایک بے ریائی اور دوسری بے نفسی،جب آدمی اللہ کے لیے کوئی کام کرے تو اس میں ریا کا معمولی شائبہ بھی نہ ہو، اور جب مخلوق خدا کے لیے کام کرے تو اس میں حددرجہ بے نفسی ہو،یہ دونوں صفات ڈاکٹر صاحب مرحوم میں بدرجہ اتم موجودتھیں۔ ان کی گفتگو میں کوئی تضاد نہیں ہوتا تھا۔ ان کے خیالات میں ایک تسلسل ہوتا تھا۔رفعت صاحب دور اندیش، ذہین اور چوکس تھے۔ ان کی رحلت سے مرکزی شوریٰ اور تحریک میں زبردست خلا پیدا ہوا ہے۔ اللہ ان کو جوار حمت میں جگہ عطا فرمائے۔

مرحوم کے دیرینہ رفیق آئی ٹی کانپور کے سینررفیق پروفیسر نعمان صاحب نے جذباتی انداز میں اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ رفعت صاحب نے غلبہ حق کی خاطربہت ساری صعوبتوں کو برداشت کیا۔آئی ٹی کانپور میں جب ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ یہاں عام طلبہ کے لیے درس قرآن کا نظم کیا جائے تو رفعت صاحب مرحوم کو انگریز ی زبان میں درس قرآن دینے کی ذمہ داری دی گئی، کانپور سے لوٹنے کے بعد اسی طرز پر ہم لوگوں نے پٹنہ میں ہندی زبان میں درس قرآن کا سلسلسہ شروع کیا،کانپور ہی میں ہم لوگوں کی ترغیب پر وہ رکن بنے،بعض باتوں میں میرے اوران کے درمیان اختلافات تھے، وہ اعلیٰ درجے کے ذہین آدمی تھے،پروفیسر صاحب نے ان کے لیے مغفرت کی خصوصی دعاء کی۔

سابق امیر حلقہ بہارجناب قمرالہدیٰ نے فرمایا کہ ان کی رحلت سے صرف ہند وستان کی تحریک نہیں بلکہ عالمی تحریکات کو نقصان نہیں ہواہے، انہوں نے بتایا کہ میرے بھانجے معروف سے ان کی رفاقت تھی اس تعلق کو بنھانے کے لیے وہ میرے گھر تک آئے،اس کے علاوہ امارت حلقہ کے دوران جب وہ امیر حلقہ دہلی تھے تو کئی ملاقاتیں ہوتی رہیں تاہم ان سے میری بے تکلفی نہیں تھی۔

مرحوم کے ہم علم اور ہم پیشہ پروفسیر محفوظ الرحمان اختر نے فرمایا کہ ان سے میری صرف ایک ملاقات تھی لیکن اس ایک ملاقات میں ہم نے پایا کہ ان کے سامنے تعمیر جہاں کا مکمل خاکہ ہے اور اللہ نے ان کو علم وفن اور اخلاق وکردار کی وہ صلاحیت بخشی تھی جس سے وہ اس نئی دنیا کی تعمیر کا کام انجام دے سکتے تھے،ہم بھی ڈاکٹر صاحب مرحوم کے اخلاص، صلاحیت اور علم وفن سے روشنی حاصل کرکے تعمیر جہاں کا رخ متعین کرسکتے ہیں۔

معروف اسکالر اور سائنس داں جناب راغب حسن صاحب نے فرمایا کہ ان سے میری ایک تفصیلی ملاقات ہے،البتہ اپنے طالب علمی کے زمانے میں پروفیسر نعمان صاحب اور ڈاکٹر رفعت سے ہم لوگ کافی متاثر ہوتے تھے،وہ لوگوں کو متاثر کرتے تھے،مخلص انسان تھے،پرکشش شخصیت کے مالک تھے،سائنس کی دنیا میں یدطولی رکھتے تھے،البتہ ان کو اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کے جوہر کو اپنے ہی میدان میں استعمال کرنا چاہیے تھا اس سے ملک اور انسانیت کو زیادہ فائدہ ہوتا۔
ناظم شہر جناب قمر وارثی نے پرگرام کی نظامت کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم ڈاکٹر صاحب میں سادگی اور انکساری بھری ہوتی تھی۔ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔

یہ اجلاس بعد نماز مغرب شروع ہوا اور ساڑھے سات بجے اختتام پذیر ہوگیا،اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔اس کے علاوہ مختلف مقامات سے تین آیات کا ترجمہ اور تفسیر پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ موت ایک نعمت ہے جو ہمیں مالک حقیقی سے ملاتی ہے اور اللہ نے جو نعمتیں ہمارے لئے تیار رکھی ہیں ان سے محظوظ ہو سکیں۔

اس اجلاس میں جماعت اسلامی ہند پٹنہ کے متوسلین کے علاوہ شہر کے منتخب اہل علم اور طلبہ ونوجوان شریک تھے۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*