رضوان احمد اصلاحی، پٹنہ
آہ! ڈاکٹرمیجر بلبیر سنگھ بھسین ۷/جون ۰۲۰۲ء کوداغ مفارقت دے گئے۔ابھی ۶۲/مئی (عیدکے دن) کی بات ہے،۵/بجے صبح ان کا فون آیا……رضوان صاحب! آپ کو عید کی ڈھیر ساری مبارکبادی!بے ساختہ میری زبان نے کہا شکریہ سر!اتنے سویرے؟ آپ کو معلوم نہیں ہے میں فوجی آدمی ہوں،صبح سویرے جگنے کی عادت ہے اور وقت کا پابند ہوں،میں نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا! اتنے سویرے تو کوئی مسلمان بھی عید کی مبارکبادی نہیں دیتا ہے اور نہ کسی نے دیا ہوگا،انہوں نے برجستہ جواب دیا، لاک ڈاؤن کے دوران یہ عید آئی ہے،ملنا جلنا، نہیں ہورہا ہے،نئے کپڑے نہیں ہیں تو خوشی کے لیے ضروری ہے کہ آپس میں زیادہ سے زیادہ مبارکبادیوں کا تبادلہ ہو! میرے منہ کا جواب منہ میں ہی رہ گیا۔ مرحوم مجھے واٹس اپ پر ایک دن قبل،چاندرات کوہی مبارکبادی بھیج چکے تھے،اتنا ہی نہیں،انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہم ہرسال رمضان میں دوروزے رکھتے ہیں،ایک پہلا اور دوسرا آخری،اس مرتبہ کسی وجہ سے ہم پہلا روزہ نہیں رکھ سکے،آخری روزہ رکھا ہے،اس کی نہ صرف روداد سنائی بلکہ وقت افطار کا ایک ویڈیوجوانہوں نے ریکارڈ کرایا تھا،افطارکرتے ہوئے،افطار کے انواع اقسام کے مینوں کا تعارف کراتے ہوئے،فوراً ہی میرے واٹس ایپ پر بھیج دیا۔ میں نے اس ویڈیوکو دیکھنے کے بعد فوراًایک جواب لکھاجو آج بھی مرحوم کے موبائل میں موجود ہوگا۔وہ ان الفاظ پر مشتمل ہے—”زبردست افطار،آپ کا افطاردیکھ کر توبہتوں کے منہ میں پانی آگیا ہوگا،افطار سے بھی زیادہ اہم آپ کا مختصر لیکن پرمغز میسج،قومی یکجہتی کی حقیقی تصویرآپ نے دکھادی ہے،اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ اگر کسی کے پاس مضبوط قوت ارادی ہوتو وہ ناممکن کام کو بھی ممکن بنالیتا ہے۔ اللہ آپ کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔آمین“۔ اتفاق ہے کہ انتقال سے چند دن قبل مرحوم نے اپنا ایک پروفائل مع فوٹومیرے واٹس اپ پر بھیجا،اسی تفصیلات کے مطابق آپ کی ولادت11/اگست 1036کو ضلع جہلم(پاکستان) کے ایک گاؤں ”مرید“میں ہوئی،ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسے میں ہوئی تھی جہاں انہوں نے اردو اور حساب کی بنیادی تعلیم حاصل کی،اعلی تعلیمB.A(Hons) اور M.A(Psycho.) پٹنہ یونیورسیٹی سے حاصل کی، Ph.Dمگدھ یونیورسیٹی سے کیا۔ تکمیل تعلیم کے بعد درس وتدریس کا پیشہ آپ نے اختیار کیا۔گروبندسنگھ کالج پٹنہ سیٹی میں Pshchoکے لکچرر رہے بعد ازاں 1975سے 1996تک اسی کالج میں پرنسپل کے عہد پر فائزرہے،اس کے بعد سات سال شعبہ دفاع (Defence Department)میں خدمات انجام دیں،اس کے بعد مگدھ یونیورسیٹی کے پرووائس چانسلر اور قائم مقام چانسلرکے عہدے پر فائزررہے“۔ آپ کی خدمات اور شخصیت سے متاثر ہوکر بھارت سرکار نے کئی اہم ایوارڈوں سے نوازا۔ نفسیات آپ کا سبجکٹ تھالیکن اردوزبان وادب سے فطری محبت تھی،ہم لوگوں سے خالص اردو زبان میں بات کرتے تھے،گرومکھی،ہندی اور اردو زبان میں برابر کچھ نہ کچھ لکھتے تھے بلکہ معیاری شاعری کرتے تھے،بنابریں ان کو بہار اردومشاورتی کمیٹی کی رکنیت حاصل تھی۔ اردو،گرومکھی اور ہندی زبان میں آپ کی ادبی ومذہبی تصنیفات اور تراجم موجود ہیں۔ ۱۔ سکھ مت، ۲۔ پتھر کی چھت (اردو،ہندی،پنجابی)، ۳۔ ایک ہندوستان کی کھوج(ہندی) ۴۔ایکتا اور انوشاشن(NCCکے لیے درسی کتاب)، ۵۔گروگرنتھ صاحب پر ایک کتابچہ، ۶۔ ایک بھول(ہندی میں ناول) ۷۔ ایک سفر ہندوستان سے ہندوستان تک(ہندی) ۸۔جاپ جی صاحب اور سکھ منی صاحب (ہندی میں ترجمہ) میجر بھسین صاحب کئی ایوارڈ سے بھی نوازے گئے تھے۔ 1969 میں یوم جمہوریہ تقریب کے موقع پر این سی سی کے کمانڈر بینر وننگ کنٹنجنٹ، 1992 میں اندرا گاندھی پریہ درشنی ایوارڈاور 2008 میں غیر مسلم شاعرکی حیثیت سے اردو کو فروغ دینے کے لئے بہار اردو اکادمی ایوراڈ سے نوازے گئے۔ اس کے علاوہ متعدد مقامی، قومی اور بین الاقوامی غیر سرکاری اداروں سے وابستہ رہے۔ 1994 سے دوردرشن چینل پر شری گرو گوبند سنگھ پرکاش اتسو کی لائیو کمنٹری کرتے آرہے تھے۔ ابھی 7/جنوری2020 کوسکھوں کے دو گرو”جاپ جی صاحب اور سکھ منی صاحب کی حیات وتعلیمات پر مشتمل کتاب کا ہندی منظوم ترجمہ کرکے رسم اجرا کرائی۔ رسم اجراء کی تقریب ہندی ساہتیہ اکیڈمی کے کانفرنس ہال میں ہوئی جس میں مجھے بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور ہم شریک بھی ہوئے تھے۔وہاں ایک سے ایک اسکالرس موجود تھے،ہم دیرسے پہنچے اور پیچھے بیٹھ گئے اہنوں نے بہ اسرارمجھے اسٹیج پر بلایا اورکچھ اظہار خیال کرنے کو کہا،میری پوری گفتگو کو انہوں نے خود ریکارڈ کیا۔ اسی طرح دو تین سال قبل غالباً کتاب ”ایک سفر ہندوستان سے ہندوستان تک“ کی رسم اجرا تھی۔ اس میں بھی انہوں نے مدعوکیا تھا،اس موقع پر ہم نے اپنے تاثرات میں کہا تھا کہ بلبیر سنگھ کواقوام متحدہ کی طرف سے ہندوستان اور پاکستان کے مابین بہتر تعلقات اور دوستی کے لیے ایوارڈ دینا چاہیے۔ مرحوم میرے نہایت ہی شفیق اور بزرگ ملاقاتی اور بزرگ دوست تھے،ان سے میری ملاقات اور تعلقات گذشتہ دس بارہ سالوں پر محیط ہیں،کنکڑباغ پٹنہ واقع گھر پر متعدد ملاقات کے علاوہ مختلف مذہبی،سماجی اور علمی مجالس میں ایک ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا۔وہ موسٹ سیئنرتھے اور حلقہ تعارف کافی وسیع تھا اس لیے بیشتر جگہوں پر انہوں نے مجھے بہ اسرار بلا یا اورمتعارف کرایا۔ یہ ان کا میرے اوپر احسان ہے اور میرے ساتھ مشفقانہ برتاؤ کی واضح دلیل بھی۔ادھر چند سالوں سے مرحوم چند ماہ پٹنہ تو چندماہ دہلی میں مقیم رہتے تھے۔ لیکن ٹیلی فونی ربط دہلی سے بھی رکھتے تھے،بیشتر دن مرحوم خود فون کرتے،آغاز میں السلام علیکم کہتے یا آداب عرض ہے، کسی وجہ سے اگر میری زبان سے نکل گیا کون؟توبہت ناراض ہوتے،کیوں کہ وہ نفسیات کے آدمی تھے،فورا محسوس کرتے کہ لگتا ہے قربت میں کچھ کمی اور تعلقات میں سرد مہری آگئی ہے۔ بلبیر سنگھ حقیقی معنوں میں انسانیت نواز اور مذہبی رواداری کے علمبردار تھے،اپنے مذھب اور مذہبی عقائد پر قائم رہنے کے باوجود دوسرے مذاہب کی حددرجہ عزت واحترام کرتے اور سب کے ساتھ تعاون واشتراک کرتے۔ اس کا احساس اسوقت شدت سے ہوا جب 21 اگست تا4/ستمبر2016ء کے دوران جماعت اسلامی ہندملک گیر مہم”شانتی ایوم مانوتا“ کے عنوان سے جناب سید سعادت اللہ حسینی صاحب (موجودہ امیرجماعت) کے کنوینر شب میں چلارہی تھی، بہار میں مہم کا کنوینر ناچیز کو بنایا گیا اور یہ طے کیا گیا کہ بہار میں اس مہم کوجماعت کے بینر کے بجائے استقبالیہ کمیٹی کے زیراہتمام چلایا جائے گا۔ چنانچہ بہار میں جن لوگوں کا سرگرم تعاون شامل رہا ان میں ایک نمایاں نام بلبیر سنگھ بھسین کا تھا،موصوف نے دل کھول کرساتھ دیا اور کئی نئے لوگوں سے تعارف کرایا، پٹنہ شہرکے بیشترپروگراموں میں بہ نفس نفیس شریک رہے، جس میں دو پرگرام کافی نمایاں رہے،دونوں پروگراموں میں تمام ہی مذاہب کے نہایت ہی معزز اور معروف مذہبی رہنماء شریک ہوئے، 20-اگست2016 کو پٹنہ جنکشن واقع ہوٹل سیٹی سینٹر میں ایک نمائندہ پروگرام ہواجس کی صدارت کے لیے راقم الحروف سمیت کئی لوگوں نے بلبیر سنگھ کا نام پیش کیا اور انہوں نے صدارت سے انکار کرتے ہوئے اردومشاورتی کمیٹی کے صدر سید شفیع مشہدی کا نام پیش کیا کہ یہ ہمارے صدر ہیں،مشہدی صاحب نے کہا آپ کے صدر ہم یہاں نہیں ہیں، اس پروگرام کے لیے آپ ہی کی صدارت زیادہ موزوں ہے،لیکن وہ پروٹوکول کی وجہ سے تیار نہیں تھے، اس پر میں نے کہا اللہ نے آپ کو سردار بنا کر پیدا کیا اور آپ سرداری سے انکار کررہے ہیں،یہ ناشکری ہوگی، اس پر انہوں نے فوراً صدارت قبول کرلی،یہ اجلاس مقصد کے لحاظ سے کافی کامیاب رہا، اس میں ایک شانتی منچ بنایا گیا، اس کے کنوینر شپ کے لیے پردیپ جین (جین مندربیگم پور پٹنہ سیٹی) کا نام آیا لیکن پردیپ جین جی کے اسرارپر سارے شرکاء نے راقم الحروف کا نام پیش کیا اور پھر کیا تھا جناب صدر نے مہر لگا دی۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف سکھ برادری، مسلمان اور اردوداں طبقہ میں وہ مقبول تھے بلکہ ان کی یہ روادری ہرمذہب کے ساتھ غالبا یکساں تھی، اس کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ بہار چیمبر آف کامرس میں جین دھرم کا ایک خالص مذہبی پروگرام تھا جس میں ناچیز کو بھی شرکت کی دعوت ملی تھی، جہاں پہلے سے بلبیر سنگھ جی، گاندھی وادی اور جین دھرم کے اسکالرپروفیسر رام جی سنگھ(سابق ممبرپارلیامنٹ) ہندودھر م کے نامور رہنماء آچاریہ کشورکنال موجود تھے،سب سے پہلے ہم نے طالب علمانہ تقریر کی،میرے بعد ان سارے بزرگوں نے تقریر یں کیں، جین دھر م کے اس پروگرام میں سبھوں سے غیر معمولی طور پر اسلام کا چرچہ اور تذکرہ کیا۔ اسی طرح کرشچن مشنری کی طرف سے”مذاہب میں ہمدردی کا تصور“ کے موضوع پرپٹنہ واقع ماؤنٹ کارمل اسکول میں ایک سمپوزیم میجربلبیر سنگھ کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ہم ایک سامع کی حیثیت سے شریک ہوئے تھے،ہرمذہب کا کوئی نہ کوئی نمائندہ مقررشامل تھا، اسلام کی نمائندگی مرحومہ ایڈوکیٹ نرگس جہاں باروی صاحبہ کررہی تھیں،ان کی گفتگو ختم ہوئی توصدرمجلس نے خود ہی نام لے کر مجھے اس تقریر پر کچھ تبصرہ کرنے کے لیے کہا جس پر انتظامیہ نے کچھ اعتراض جتائے کہ ایک مذہب کی جانب سے ایک مقرر ہی بولے گا،دوسرا نہیں بولنا چاہیے۔اس پر بلبیر سنگھ نے اپنے صدارتی اختیارات اور ذہانت کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ یہ تقریر نہیں کریں گے بلکہ تبصرہ کریں گے۔ خیر ہم کو جو کچھ سمجھ میں آیا ہم نے اپنی باتین رکھ دیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی ہندبہار نے ایک دعوتی مہم مارچ ۴۱۰۲ء میں چلائی تھی،اس موقع پر ایک نمائندہ پروگرام 23مارچ ۴۱۰۲ کو اے این سنہا انسٹیوچیوٹ پٹنہ میں سابق امیر جماعت سید جلال الدین عمری صاحب کی صدارت میں ہوا،اس موقع پر بلبیر سنگھ جی دہلی میں تھے، میں نے دعوت دی اور اسرارکیا کہ آپ کو آنا ہوگا، وہ اس شرط کے ساتھ آمادہ ہوئے کہ ایک طرف کا کرایہ رضوان صاحب کو دینا ہوگا لیکن یہ بات راست مجھ سے کہنے کے بجائے اپنے ایک دوست اسلم جاوداں صاحب سے کہی،جس سے ان کا وقار میرے نزدیک اور بڑھ گیااور ہم نے فوراً ہی تائید کردی،پروگرام کے اختتام پر جب ہم نے لفافہ بڑھایا تو انہوں نے لینے سے انکار کردیا کہ کل اردو مشاورتی کمیٹی کی بھی میٹنگ ہے اور انہوں نے بھی دعوت دی ہے لہذا اب آپ سے کرایہ نہیں لیں گے۔ یہ ان کے حددرجہ اخلاص، محبت اور ایمانداری کی زندہ مثال تھی۔ اس موقع پر انہوں نے نجات وفلاح کے موضوع پر جو گفتگو کی تھی وہ اب بھی محفوظ ہے۔مرحوم نے عرض کیا کہ ”سکھ مت میں کامیاب انسان کی علامت یہ بتائی گی ہے کہ وہ بیکار نہ بیٹھے، آپس میں بانٹ کر کھائے اور خدا کا نام لیکر زندگی گذارے،یہی کامیابی کا راز ہے۔ آپ نے مزید کہا کہ مکتی کرموں سے ہی ممکن ہے“۔ وہ اچھے مصنف اور انشاء پردازکے ساتھ ساتھ ایک اچھے مقرر بھی تھے،بہت سارے مواقع پر ہم نے ان کی مختصر اور جامع تقریر سنی ہے،وہ نیتا کی طرح دھواں دھار اور شعلہ بیان مقرر نہ تھے البتہ رک کر، ٹھہر،ٹھہرکر،جملے ناپ، تول کر ذمہ دارانہ انداز میں بولتے تھے،حسب ضرورت حکومت پر سنجیدہ تنقید بھی کرتے تھے۔ ایک موقع پر مدرسہ شمس الہدی میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک پروگرام ہوا۔اس موضوع پر سب سے اچھی تقریر مرحوم کی ہوئی تھی۔ابھی گذشتہ سال کی بات ہے۔ پٹنہ میڈیکل کالج کی میلاد کمیٹی کی جانب سے سالانہ جلسہ سیرت البنی ﷺ میں ایک مقررکی حیثیت سے مرحوم تھے اوردوسرے مقررکے طور پر ہم کو بھی بلایا گیا تھا، میٹھی اورشیریں زبان میں پہلے انہوں نے تقریرکی،میڈیکل کالج کے طلبہ وطالبات بہت محظوظ ہوئے،بچوں میں عزم،ہمت،حوصلہ اور چست درست رہنے کے لیے دوران تقریر یہ بات کہی کہ کوئی میری عمرپوچھتا ہے تو میں بتاتا ہوں کہ ابھی میں 28سال کا ہوں،یہ کوئی جھوٹ نہیں ہے بلکہ آپ گنتی کو الٹ دیجئے۔2016میں گروگووند سنگھ کی جینتی کے موقع پر پرکاش پروکا اہتمام نہایت ہی تزک واحتشام کے ساتھ کیا گیا۔اس موقع پر پوری دنیا سے سکھ عقیدت مندوں کا ہجوم بہار کی راجدھانی پٹنہ میں امڈپڑا،ہم لوگوں نے جماعت کی طرف سے شہر میں جگہ بہ جگہ استقبالیہ بینرلگائے جس میں قرآن وحدیث میں مذکور تکریم انسانیت کے پیغام کے ساتھ گرونانک کے اقوال ذریں بھی لکھے گئے تھے نیز انتظامیہ کی اجازت سے عقیدت مندوں کی گذر گاہوں پر28دسمبر2016کو چائے،،بسکٹ اور پانی کا ایک اسٹال بھی لگایا گیا تھا،الحمدللہ توقع سے زیادہ زائرین اسٹال پر آئے اوراستفادہ کے ساتھ خیر سگالی اور بھائی چارہ کے پیغام کا تبادلہ ہوا۔مسلمانوں کی طرف سے یہ سب سے بڑا اسٹال تھا، میڈیا میں بھی نمایاں کوریج ملا،گرومکھی زبان کا انٹرنیشنل چینل ”اکال ٹی وی چینل“ نے اچھی رپورٹنگ کی،غالباً ان ہی ذرائع ابلاغ سے ساری خبریں بلبیر سنگھ بھسین تک پہنچیں کیوں کہ وہ اسٹال تک نہیں آسکے تھے،اس پر انہوں نے نہ صرف ذاتی طور پر ہمیں مبارکباددی اورکلمات تشکر کہے بلکہ کئی مہینوں تک مختلف نشستوں میں جہاں ہم لوگ موجود بھی نہیں تھے، اپنے تاثرات میں کلمات تشکر کہتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ بلبیر سنگھ جی کے خلوص و محبت کی ایک مثال یہ ہے کہ پرکاش پرو ہی کے موقع پر بہار سرکار کے ٹورزم ڈپارٹمنٹ کی پرنسپل سکریٹری محترمہ ہرجوت کور تھیں، مرحوم کے توسط سے ہم ایک وفد کے ساتھ ملنے گئے،تحفے میں مٹھائی کے بجائے کتابوں کا ایک سیٹ لیکر گئے،پتہ نہیں مرحوم نے ہمارا ان سے کیا تعارف کرایا تھا— ویسے سامنے میں بھی تعارف کراتے تب بھی پتہ نہیں چلتا کیوں کہ بنگالی،کیرلین اورکشمیری کی طرح دو سکھ بھی آپس میں گرومکھی میں ہی بات کرتے ہیں، کچھ پتہ نہیں چلتا— محترمہ پرنسپل سکریٹری صاحبہ سکریٹریٹ میں نہایت ہی عزت واحترام کے ساتھ ملیں اور خیر سگالی کے ساتھ مذہبی اور روحانی تعلیمات کے فروغ پر زور دیا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ اس وقت پیش آیا جب پٹنہ صاحب گردوارہ میں پہلی دفعہ گرودوارہ پربندھک کمیٹی سے ملنے گئے،وہاں ہمارے استقبال کے لیے سکھ برادری کے نہایت ہی معزز اور فعال شخصیت اور ہمارے اچھے دوست تیرلوک سنگھ جی موجود تھے،انہوں نے میرے سامنے میں تیرلوک سنگھ جی کو گرومکھی زبان میں کیا کہا نہیں معلوم پر تیرلوک سنگھ جی نے نہایت ہی عقیدت ومحبت سے پورے گرودوارہ کی زیارت کرائی، جگہ بہ جگہ رک کرتاریخی اور مذہبی رسومات سے واقف کرایا، واپس لا کرجنرل سکریٹری کے چیمبر میں ملاقات اور ضیافت کروا کر رخصت کیا۔ بلبیر سنگھ کی نیک نیتی اور طبیعت کی شرافت کو سمجھنے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ ابھی کرونا لاک ڈاؤن میں جب کچھ رعایت ہوئی اور پہلے ہی مرحلے میں ملک کے بعض ریاستوں میں شراب کی دوکانیں کھلیں اور اس سے جو تباہی وبربادی کی جو خبرین موصول ہوئیں،اس پر انہوں نے فون کرکے دلی تکلیف کا اظہار فرمایا اور تبصرتاً کہا کہ ہم نے کبھی نتیش کمار کی تعریف نہیں کی، آج تعریف کررہا ہوں کہ انہوں نے ایک بہت ہی اچھا کام کیا ہے کہ بہار میں شراب بند کرادی۔ موصوف سکھ دھرم اور اسلام کے درمیان چند مشترکہ تعلیمات کابھی تذکرہ ہمیشہ کیاکرتے تھے کہ سکھ دھرم میں ۰۱/فیصد آمدنی غریبوں پر خرچ کرنے کے لیے کہا گیا ہے اور اسلام میں ڈھائی فیصد زکوۃ نکال کر غریبوں تک پہنچانے کی تعلیم دی گئی ہے۔ ابھی کرونا لاک ڈاون کے دوران مسلمانوں کی خدمت خلق سے متاثر ہوکر انہوں نے ایک شعر سنایا جو مجھے یاد نہیں ہے، تاہم اس کا مفہوم ازبر ہے کہ”لنگراور کھانا کھلانے کا کام تو سکھ کرتے تھے،یہ مسلمان سکھ کیسے ہوگئے“۔ اس پرمیں نے تحدیث نعمت کے طور پر کہا کہ الحمدللہ مسلمان پہلی دفعہ اتنے بڑے پیمانے پر بھوکوں،مزدوروں اور پریشان حال لوگوں کی کی مدد کے لیے آگے ہیں۔مرحوم نے ذراکسی تامل اور تاخیر کے کہا کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں! میں بالکل خاموش ہوگیا کہ میں نے خواہ مخواہ اپنی زبان سے اپنی تعریف کردی،اس پر انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے پہلی دفعہ یہ کام نہیں کیا ہے، مسلمانوں کی تاریخ ایسے کاموں سے بھری پڑی ہے،یہ کہیے کہ مسلمانوں نے بہت دنوں کے بعد پھر سے اپنے اصل کام کا اعادہ کرنا شروع کیا ہے۔ یقینا بلبیر سنگھ پوری زندگی ایک کامیاب استادرہے،نفسایات کے پروفیسر ہی نہیں صحیح معنوں میں ماہر نفسیات تھے۔فوجی رعب ہی نہیں بلکہ حق گوئی و بے باکی ان کی شخصیت کا لازمی حصہ تھا، پرانے قدروں کے امین تھے۔ان کے انتقال سے ملک کی مشترکہ وراثت کا ناتلافی نقصان ہوا ہے،اللہ مرحوم کا نعم البدل اس ملک کو عطاء فرمائے۔ آمین
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاے ہیں ٭ کہیں سے آب بقاء دوام لا ساقی
Be the first to comment